مولا بخش ہاتھی کی وفاداری اور انسانوں کی غداری

مولا بخش ایک قدیم و معمر ہاتھ تھا۔کئی بادشاہوں نے اس پر سواری کی تھی لیکن جانور ہوتے ہوئے بھی وہ انسانوں کو وفاداری کا سبق دے گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس ہاتھی کی عادتیں بالکل انسان کی سی تھیں۔وہ انسانوں کی بات سمجھتا تھا۔عام انسانوں کی طرح خوشی اور غصے کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اس طرح کا دوسرا قد آور ہاتھی پورے ہندوستان میں نہیں تھا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرنے دہلی میں لاہوری دروازے کو مولا بخش ہی کے لئے تڑوا کر بنوایا تھا تاکہ وہ با آسانی سے گزر سکے۔وجہ یہ تھی کہ عید و بقر عید کی سواری عید گاہ کے قریب ہونے سے اسی دروازے سے گزرتی تھی۔

یہ ایک عجیب ہاتھی تھا شاید انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے اس میں انسان ہی طرح کی عادتیں پیدا ہو گئیں تھیں۔وہ سوائے خدمتی کے کسی اور کو اپنے نزدیک نہیں آنےدیتا تھا۔بادشاہ کے سوار ہونے سے ایک دن پہلے بادشاہی چوبداریہ حکم سنا دیا کرتا تھا۔میاں مولا بخش کل تمہاری نوکری ہے ہو شیاررہوجاؤ اور نہا دھو کر تیار رہنا۔بس یہ ہاتھی بھی اپنی تیاری کرتا۔جس وقت بادشاہ کی سواری نقار خانہ کے دروازہ سے باہر آتی تو یہ ہاتھی چیخ مار کر تین سلام کرتا اور خود ہی بیٹھ جاتا۔جامع مسجد کے مشرقی دروازے کے آگے سڑک قلعہ کی جانب مڑتی تھی۔اسی جگہ پر فیل خانہ تھا۔تمام دن گنوں کے لالچ میں مولا بخش ہاتھی کے ارد گرد بچے جمع رہتے تھے-کوئی بچہ کہتا “مولا بخش یاری آوے” تو مولا بخش گنا اس بچے پر پھینک دیتا۔مولا بخش روٹی اس وقت تک نہیں کھاتا تھا جب تک کوئی بچہ اس روٹی کا ٹکڑا نہیں لیتا تھا۔اسی دوران اگر فیل خانہ کا کوئی آدمی بچوں کو بھگا دیتا تو مولا بخش ناراضگی اور احتجاج کے طور پر پاؤں اٹھائے رکھتا تھا۔آخر کار جب کسی بچے کو واپس بلایا جاتا تو مولا بخش اپنا پاؤں زمین پر رکھتا۔

ایک روز مہاوت نے بادشاہ سے عرض کی کہ حضور مولا بخش تمام گنے اور راتب کی روٹیاں بچوں میں بانٹ دیتا ہے۔اس لئے بچوں کو روکا جائے۔چنانچہ بہادر شاہ ظفر نے حکم دے دیا۔اگلی صبح معمول کے مطابق مولا بخش نے بچوں کا نتظار کیاجب کوئی لڑکا نہیں آیا تو مولا بخش نے گنے نہیں کھائے۔شام کو راتب بھی نہیں کھایا۔اور نہ ہی پانی پیا۔ تین روز اسی طرح گزر گئے۔جب تیسرا دن بھی گزر گیا تو فیل بان نے اس خیال سے کہ ہاتھی بچوں کے بغیر کھائے گا کچھ نہیں اور یوں ہی مر جائے گا،بادشاہ کے پاس جا کر فیل بان نے کہا کہ مو لا بخش نے تین روز سے کچھ نہیں کھایا۔یہ سن کر بادشاہ نے حکم دیا کہ بھائی میں بھی فقیر ہوں اور میرا ہاتھی بھی ایسا ہی ہے۔خدا نے مجھے اس واسطے دیا ہے کہ ہم بانٹ کر کھائیں۔جب بچے آنا شروع ہو ئے تو مولا بخش نے راتب اور گنے بانٹ کر کھانا شروع کئے۔

بہادر شاہ ظفر نے ولی عہدی کے زمانہ میں ایک ہاتھی مکھنا کے نام سے پالا تھا۔جو قد اور اور خوبصورت تھا۔ایک دن بادشاہ نے حکم دیا کہ مولا بخش اب بوڑھا ہو گیا ہے۔یہ سن کر فیل بان مولا بخش کے پاس آیا اور اس کے سامنے بیٹھ کر اپنا سر پکڑ لیا اور کہا بیٹا مولا بخش آج سے ہم بھی بوڑھے ہو گئے ہیں تو بھی بوڑھا ہو گیا ہے۔اب بادشاہ سلامت مکھنا پر سوار ہوں گے۔یہ سن کر مولا بخش نے کچھ دیر انتظار کیا۔پھر جب دیکھا کہ سواری کا وقت گزر گیا ہے۔تو اس نے پاؤں کی زنجیر توڑ دی اور آہستہ آہستہ دیوان عام کی جانب چلا گیا جہاں مکھنا ہاتھی موجود تھا۔اور یوں مولا بخش اور مکھنا کی لڑائی شروع ہو گئی۔مولا بخش مکھنا سے مار کھاتا رہا۔
آخر کار دونوں مہاوتوں نے ان کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ نہیں ہٹۓ۔بہادر شاہ ظفر کو اطلاع دی گئی۔جب وہ آیا تو اور اس نے مولا بخش سے کہا “بیٹا تجھ پر ہی سواری کروں گا” یہ سننا تھا کہ مولا بخش نے مکھنا کو چھوڑ دیا۔اور اپنے فیل بان کے ساتھ واپس فیل خانہ میں آ گیا۔

جب 1857ء کی جنگ آزادی میں بہادر شاہ ظفر کو شکست ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا تو شاہی فیل خانہ اور اصطبل بھی انگریزوں کے قبضہ میں آ گیا۔اسی وقت سے مولا بخش ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔اسی دوران مولا بخش کے فیل بان نے انگریز فوجی افسر سانڈرس کواس بات کی اطلاع دی کہ ہاتھی نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ پہلے تو سانڈرس کو اس بات کا یقین ہی نہیں آیا۔اور الٹا فیل بان کو گالیاں دیں۔لیکن ساتھ ہی بہت سے لڈواور کچوریاں بھجوائیں اور ایک ٹوکرے میں رکھ کر مولا بخش کو سامنے رکھوا دی گئیں۔ہاتھی نے سونڈ سے ٹوکرا اٹھا کر دور پھینک دیا۔تمام مٹھائی گر گئی۔یہ صورتحال دیکھ کر وہ انگریز افسر بولا اس نامعقول کو نیلام کر دیا جائے۔چنانچہ اسی دن دہلی کے صدر بازارمیں لے جا کرنیلام کیا گیا۔ایک شخص جس کا نام بنسی پنساری تھا اس کی پنسار کی دکان دہلی کے کھاری باؤلی کے علاقہ میں تھی،اس نے نیلامی میں مولا بخش ہاتھی ڈھائی سو روپئے کی بولی پر خرید لیا۔اس موقع پر فیل بان نے ہاتھی سے کہا کہ “لے بھائی تمام عمر تو نے اور میں نے بادشاہوں کی نوکری کی اب میری اور تیری تقدیر پھوٹ گئی کہ اب ہمیں پنسار والے کے دروازے پر چلنا پڑا” یہ سنتے ہی ہاتھی نے ایک دردناک چیخ ماری اورکھڑے قدموں سے دھم سے زمین پر گر پڑا اور جاں بحق ہو گیا۔اس کے برعکس ان دنوں انسانوں میں ایسے بھی غدار تھے جو جنہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مذہب و انسانیت کے دشمن،غیر ملکی حکمرانوں کی طاقت و اقتدار کو برقرار رکھنے اور ہندوستان کے طوق غلامی کو مظبوط کرنے اور 1857ء کی جنگ آذادی کو ناکام بنانے کے لئے اپنی پوری طاقت و قوت صرف کر دی تھی اور مجاہدین کا مقابلہ کر کے ان کو پھانسیوں پر چڑھوا دیا۔ بہادر شاہ ظفرکا “مولا بخش ہاتھی” کےمولف لکھتے ہیں کہ مولا بخش کے یہ واقعات جن شہزادوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔وہ انہوں نے من عن لکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں