تحقیق و تحریر محمد عدنان خان
جب سرائیکی زبان کی خدمات کا ذکر کیا جاتا ہے تو بعض اصحاب ناک بھوں چڑھاتے ہیں اوربعض سرے سے اس کو ایک الگ زبان تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیتے ہیں-کوئی اسے بولی کہتا ہے کوئی علاقائی لہجہ اور کوئی پنجابی کا سرائیکی انگ-بہت فراخ دل آدمی اسے مردہ زبان کہہ کر منہ پھیر لیتا ہے-حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی نہ تو مردہ زبان ہے نہ یہ بولی اورعلاقائی لہجہ ہے،بلکہ اس زبان نے اردو کو اپنا خون دے کر پالا،گھٹنوں چلنا سکھایا اور پروان چڑھایا-پنجابی زبان کی حقیقت کے بارے میں بھی جان لیں کہ جس کے بولنے والے سرائیکی کو پنجابی کا انگ تصور کرتے ہیں-“ابوالفضل (1551ء-1602ء) جہاں آئین اکبری میں اکبر کے زیر نگیں علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کے نام گنواتا ہے وہاں پنجابی کا نام نہیں لیتا ابو الفضل نے موجودہ پنجاب میں بولی جانے والی زبان “ملتانی” بتائی جس کا مطلب یہ ہے کہ پنجابی نام کی کسی زبان کا زمانہ قدیم میں کوئی وجود نہیں رہا-ابن حوقل نے جو کہ 976ء میں اس علاقے میں وارد ہوا دیکھا کہ اس علاقے میں ( جسے ایک وقت مغربی پاکستان کہا جاتا تھا) دو بڑی ریاستیں تھیں ایک ملتان اور دوسری منصورہ،جسے عربوں نے آباد کیا-
یہ شہر حیدر آباد کے شمال میں واقع ہے-ظاہر ہے ان دونوں ریاستوں میں بالترتیب ملتانی اور سندھی بولی جاتی تھی-تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت بابا فرید گنج(1266ء) کی مادری زبان ملتانی تھی-اگر پنجابی نے موجودہ سورت مغلوں کی آمد سے بہت پہلے اختیارکرلی تھی تو ابو الفضل نے پنجابی کی بجائے ملتانی زبان کا نام کیوں لیا اور پھر 1551ء سے پہلے کا پنجابی ادب کہاں گیا-امیر خسرو کی منظوم لغت کالق باری میں نصف سے زیادہ الفاظ سرائیکی کے ہیں-جس کا مطلب یہ کہ انہوں نے اپنی شاعری اور تبلیغ اسلام کے لئے ملتانی/سرائیکی زبان سے کام لیا-تمام مورخین کا اس امراتفاق ہے کہ ہارون عربی کے علاوہ مقامی ملتانی زبان میں شعر کیا کرتا تھا اور مقامی بولی کے اشعار بزم سے زیادہ رزم سے تعلق رکھتے تھے-اس لحاظ سے گویا ہارون بن موسیٰ ملتانی ساتویں صدی کا عظیم مذہبیہ سرائیکی شاعر تھا-پنجابی زبان کے مقابلے میں قدیم زمانے کی سرائیکی تصانیف موجود ہیں-قدامت کے لحاظ سے نورنامہ (1107ء-1111ء-501ھ-505ھ) مستقل سرائیکی تصانیف میں سب سے قدیم نظر آتا ہے- علاؤالدین خلجی نے 1310ء میں اپنا دارالخلافہ دہلی سے دکن میں منتقل کیا-ان اقدامات سے ریختہ میں شعرکہنے کا رحجان قدرتی طور پر دکن میں بہمنی دور 1353ء سے لے کر قطب شاہی اور عادل شاہی دور تک اور اورنگ زیب کی فتح دکن تک اردو شاعری میں بے شمار الفاط سرائیکی زبان کے نظر آتے ہیں- یہی وہ الفاط ہیں جنہیں ڈاکٹر وزیرآغا نے پنجا بی کہ ہے۔حافط محمود شیرانی کے خیال کے مطابق پنجاب کی وہ زبان جس نے محمود غزنوی کی آمد کے بعد فارسی میل جول سے اردو ادب کا روپ اختیار کیا،ملتانی زبان ہے(جسے آج سرائیکی کیا جاتا ہے) جو ایک وسیع علاقے میں بولی جاتی تھی-