کابل ہسپتال پر حملہ اورانسانی ہمدردی کی لازوال مثال

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے دشت برچی ہسپتال کے زچہ بچہ وارڈ میں منگل 12 مئی کی صبح دس بجے تک سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔پھر نامعلوم حملہ آوروں نے ہسپتال میں فائرنگ کر دی۔ نومولود بچے، بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک اور زخمی ہوئیں- یہ ظلم و بر بریت کی انتہا تھی کہ اس حملے میں ایک اور نوزائیدہ بچی آمنہ کی دونوں پیروں میں گولیاں لگی ۔ ڈاکٹروں کے مطابق دائیں پیر میں دو جگہ گولیاں لگنے کی وجہ سے آمنہ کا یہ پیر جسم سے علیحدہ کیے جانے کا خطرہ ہے۔آمنہ کی والدہ نادیہ اس حملے میں ہلاک ہو گئی ۔کئی نوزائیدہ بچے اگرچے اس حملے میں بچ تو گئے لیکن اُن کی مائیں اس دنیا میں نہیں رہیں-اس ہسپتال پر تین مسلح حملہ آوروں نے حملہ کیا تھا اور اس حملے کے نتیجے میں نوزائیدہ بچوں سمیت چوبیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے جبکہ طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔اس حملے میں بچ جانے والی ایسی ہی ایک بچی کو کابل کے ایک انجینیئر فخرالدین جامی اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر مرسل برین نے گود لے کر انسانی ہمدردی کی ایک لازوال مثال رقم کر دی۔ بقول فخرالدین جامی اُنھوں نے اس ’بچی کو صرف اور صرف انسانیت کے ناطے اپنایا ہے‘۔فخر الدین مزید کہتے ہیں کہ ’ہمارے ہاں آٹھ ماہ پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اور بچے پیدا نہیں کریں گے کیونکہ اس دور میں بچوں کو پالنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، جب اُنھوں نے منگل کو زچہ بچہ وارڈ پر حملے اور ہلاک ہونے والی ماؤں اور بچوں کے بارے میں سنا تو اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں میں سے ایک ایسے بچے کو اپنائیں گے جس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ہم اس بچی کو اپنے گھر لے کر آئے تو مجھ سے زیادہ میری اہلیہ اس پر خوش تھیں-فخرالدین اور ان کی اہلیہ نے اب تک اس بچی کا نام نہیں رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں