اسے مکافات عمل یا قدرت کا انتقام کہیں کہ وہ برطانیہ جوسوسال پہلے ترکی کا نہ صرف دشمن تھا بلکہ عظیم ترک سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کا باعث اور ذمہ دار بھی تھا۔آج سوسال پورے ہونے کو ہیں اور اسی برطانیہ پرایک ترک خاندان کا بیٹا بطوروزیراعظم حکمران ہے۔ بورس جانسن کے پڑدادا کا نام علی کمال تھا اور وہ ایک صحافی اور لبرل سیاستدان تھے۔ علی کمال کے والد کا نام احمد آفندی تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سے تاجر تھے۔ وہ اس وقت کے قسطنطنیہ اور آج کے استبول میں سنہ 1867 میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ حنیفہ فریدے سر کیشیائی نسل سے تھیں اور احمد آفندی کی دوسری اہلیہ تھیں۔ علی کمال نے ابتدائی تعلیم استنبول میں حاصل کی لیکن اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک کا سفر اختیار کیا۔ وہ اس سلسلے میں جینیوا اور پیرس میں مقیم رہے جہاں سے انھوں نے سیاسیات میں ڈگری مکمل کی۔ بیرون ملک قیام کے دوران ہی علی کمال نے سنہ 1903 میں ایک سوئس-انگریز خاتون ونی فریڈ برون سے شادی کی۔ اس شادی سے ان کے دو بچے ہوئے۔ بڑی بیٹی کا نام سلمیٰ رکھا گیا جبکہ ان کے بیٹے کا نام عثمان علی تھا۔ عثمان علی کی پیدائش کے فوراً بعد علی کمال کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور دونوں بچوں کو پرورش کے لیے ان کے ننھیال کے ہاں بھیج دیا گیا جو اس وقت برطانیہ میں رہتے تھے۔ دونوں بچوں کی پرورش ان کی نانی مارگریٹ برون نے کی۔ اپنے ننھیال میں دونوں بچوں نے اپنے نام تبدیل کر لیے تاکہ وہ اس وقت کے برطانوی معاشرے میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ عثمان علی بعد میں ولفریڈ عثمان جانسن کے نام سے پہچانے گئے۔
ولفریڈ نے جوان ہو کر ایرین وِلس نامی ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی جس سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے، بورس کے والد سٹینلے جانسن، چچا پیٹر جانسن اور پھوپھی ہِلری جن کا خاندان بعد میں آسٹریلیا منتقل ہو گیا۔
علی کمال کا خاندان صرف سلمی اور عثمان علی تک محدود نہیں رہا کیونکہ بعد میں علی کمال نے ایک ترک خاتون صبیحہ خانم سے شادی کی جو سلطنت عثمانیہ کے دربار سے وابستہ ایک نواب ذکی پاشا کی بیٹی تھیں۔ اس شادی سے ان کے ہاں 1914ء میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام ذکی کنرالپ رکھا گیا۔علی کمال صرف تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہی بیرون ملک نہیں گئے بلکہ کئی مواقع پر انھیں اپنے لبرل سیاسی خیالات کی وجہ سے بھی جلا وطنی اختیار کرنی پڑی جس دوران وہ برطانیہ اور شام میں مقیم رہے۔جب برطانیہ نے عالمی جنگ کے بعد قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تو علی کمال نے قابض فوج کا ساتھ دیا۔ قبضے کے چار سال بعد جب ملک میں ایک طفیلی حکومت قائم کی گئی تو علی کمال اس میں وزیر داخلہ تھے۔ لیکن یہ حکومت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور تین ماہ بعد ہی اس کا خاتمہ ہو گیا۔ قابض فوج کا ساتھ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا اور ان لوگوں میں اس کی شدت خاص طور پر زیادہ تھی جنھوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی سربراہی میں لڑی جانے والی جنگِ آزادی میں جانی اور مالی نقصان برداشت کیا تھا۔علی کمال کو 4 نومبر 1922 کو اس وقت اغواء کر لیا گیا جب وہ استنبول میں ایک حجام کی دوکان پر موجود تھے۔ ان کو اغواء کرنے والے نورالدین پاشا نے آزادی کی جنگ میں دو بیٹوں کو گنوایا تھا۔ علی کمال کو ایک ٹرین کے ذریعے ایک دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا کہ بلوائیوں نے ایک سٹیشن پر انہیں ٹرین سے اتار لیا اور مار مار کر قتل کر دیا۔
علی کمال کی اولاد میں سے عثمان علی کے سلسلۂ نسب نے ناصرف نام تبدیل کیے بلکہ انہوں نے عیسائی مذہب بھی اختیار کر لیا جبکہ ان کی دوسری شادی سے ہونے والے بیٹے ذکی کی اولاد ابھی تک اسلام کی پیرو کار ہے۔
ذکی کنرالپ نے کمال اتا ترک کے انتقال کے بعد وطن واپسی اخیار کی اور اس وقت کے صدر کی خصوصی اجازت سے ترک محکمہ خارجہ میں شمولیت اختیار کی اور دو مواقع پر لندن میں ترک سفیر رہے۔ ان کے ایک بیٹے صنعان استنبول میں نشرو اشاعت کا کام کرتے ہیں جبکہ دوسرے سلیم اپنے والد کی طرح سفارتکار ہیں۔
لیکن تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ صنعان اور سلیم کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے احمد آفندی کی نسل برطانیہ میں موجود جانسن قبیلے اور ہِلری کی اولاد سے آسٹریلیا میں ہی آگے بڑھے گی جس میں ترک النسل ہونے کی واحد نشانی بورس جانسن کی بہن ریچل جانسن کا درمیانی نام صبیحہ ہے جو انہیں اپنی پڑدادی کے نام پر دیا گیا تھا۔علی کمال کے بیٹے عثمان نے ایک برطانوی عورت ایرینی ولیم سے شادی کی۔برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن علی کمال کے پڑپوتے اور ان کے بیٹے عثمان کے پوتے ہیں۔پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر علی کمال کی بیٹی سلمہ واپس ترکی آ گئیں اور انہیں شہریت دیدی گئی۔ان کی دوسری بیوی صبیحہ علی کمال کے قتل کے اپنے بیٹے ذکی کے ہمراہ سوئیٹزرلینڈ چلی گئیں اور وہاں چند سال جلا وطنی کے گزارے۔پھر اتا ترک کی وفات کے بعد وطن واپس آ گئیں۔علی کمال کے بیٹے ذکی نے ترکی آ کرفارن سروسسز جوائن کی اور 1966ء سے 1978ء تک انگلینڈ،سوئیٹزرلینڈ،اور سپین میں ترکی کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔برطانوی وزیر اعظم کے کزن سینن آجکل ترکی میں استنبول شہر کے ایشین جانب ایک پہاڑی مقام پر”سینن پبلشرز” کے نام سے قائم نشرو اشاعت کے ادارے کے مالک ہیں جو ترکی کی تاریخ ثقافت پر کتابیں شائع کرتے ہیں۔سینن پبلشرزنے اپنے دادا علی کمال کی سیاسی اور صحافتی جدوجہد کے علاوہ ان کا لکھا ہوا ناول”فطرت” شائع کر چکے ہیں۔بورس جانسن ترکی میں رہنے والے کزنز سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں۔اور ان کے آپس میں خوشگوار تعلقات ہیں۔