پرانی دہلی میں اجمیری دروازہ کے ساتھ ہی ایک پرانی شاندارعمارت اپنے ماضی کی داستاں گو ہے-کسی زمانہ میں یہ عمارت مدرسہ غازی الدین کہلاتا تھا-مدرسہ سے ملحق ایک سرائے اور مسجد بھی تھی-غازی الدین خان سوئم میر محمد پناہ مغلیہ دور حکومت میں درباری تھا- بعض روایات کے مطابق اس نے 1760 ء میں دہلی میں شاہجہان آباد کے مقام پر مدرسہ قائم کیا-جو اجمیری دروازہ کے باہر تھا۔یہ وہی جگہ ہے جو اس کے پڑدادا غازی الدین اول میر شہاب الدین نے اپنے مزار کے لئے منتخب کی تھی اور بعد میں اس کی وصیت کے مطابق اسے وہیں دفنایا گیا تھا۔1710 ء میں وہ گجرات کے گورنر کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہا تھا۔
مدرسہ غازی الدین مٰیں عربی و فارسی اور قرآن احادیث و فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ابتداء میں مدرسہ میں صرف 9 طلباء زیر تعلیم تھے اور ایک ہی استاد انہیں پڑھانے والا تھا جس کی تنخواہ ریاست ٹونک کے نواب امیر محمد خان ادا کیا کرتا تھا۔
برطانیہ کی عملداری کے اوائل وقت میں یہ اینگلو عریبک کالج کے درجہ پر پہنچ گیا۔پرانی عمارت 17 ویں صدی میں دہلی میں ہونے والے واقعات کی گواہی دیتی نظر آتی ہے-یہ عمارت 1792ء میں قائم ہوئی۔دہلی میں موجود تاریخی درسگاہوں میں شامل اس عمارت کا طرز تعمیر ماضی کے واقعات کی عکاسی کرتا ہے۔مدرسہ غازی الدین میر محمد پناہ سوئم نے 1792ء میں قائم کیا۔دہلی پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد حکومت برطانیہ نے اس مدرسہ کا نام دہلی کالج رکھ دیا اور اسے دہلی میں واقع کشمیری دروازہ کے سامنے واقع دارا شکوہ لائبریری میں منتقل کر دیا۔1857ء کی جنگ آزادی کے دوران حریت پسندوں کے حملے کے دوران اس کالج کے انگریز پرنسپل ٹیلر،ہیڈ ماسٹررابرٹ،اور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر سٹیوارٹ کو قتل کر دیا گیا۔جب دوبارہ انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تو اسی کالج کے فارسی کے استاد مولوی امام بخش صہبائ کو باغیوں کو اکسانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔انہیں انگریز تعلیمی عملہ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک مختصر سی عدالتی کاروائی کے بعد سزائے موت سنا ئی اور دہلی کے مضافات میں لے جا کر گولی مار کر قتل کردیا گیا-مختلف مورخین کے مطابق انگریز تدریسی عملہ اسلام دشمن قوتوں کی سر پرستی کرتا تھا-وہ مدرسہ جو کبھی فارسی اور عربی علوم کی ترویج کا باعث تھا.اب یہاں برطانیہ کے پر تشدد قوانین کی ترویج ہو نے لگی- مسلمانوں کو دی جانے والی سزاؤں کے منصوبے اور سازشیں یہاں تیار یونے لگیں-انگریز استاد معلم کے روپ میں یہاں بیٹھ کونخوار بھیڑیوں کا کردار ادا کرتے رہے.بے گناہ ہندوستانیوں کے نا حق قتل کا باعث بنے-
مولوی امام بخش صہبائ کے ناحق قتل کے بعد دہلی کی فضا انتہائی سو گوار ہو گئی اور حکومت نے مخالفانہ رد عمل سے بچنے کے لئے بدہواسی کے عالم میں انگریز انتطامیہ نے کالج بند کردیا-دہلی میں طلباء کی بڑی تعداد حریت پسندوں سے مل کر انگریز افسران پر حملے کرتی رہی۔اور یوں 1857ء سے 1864ء تک کالج بند رہا۔مرزا اسد اللہ غالب نے دہلی کالج میں فارسی پڑھانے کے لئے ملازمت اختیار کی لیکن برطانوی تدریسی عملہ کے امتیازی سلوک کی وجہ سے یہ ملازمت چھوڑ دی۔ہندوستان کی مشہور اسلامی درسگاہ دارلعلوم دیو بند کے بانی بھی مدرسہ غازی الدین کے فارغ التحصیل تھے۔