افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمان کی طبعیت میں تند مزاجی اور بے رحمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو اس کے والد کی لاکھ کوششوں کے باوجود ختم نہ ہوسکی۔اپنی خود نوشت سوانح حیات تاج التواریخ میں اس نے بیان کیا ہے کہ بچپن میں مجھ پر چرس اور شراب پینے کا الزام لگایا گیا۔جس پر میرے والد نے مجھے کال کوٹھڑی میں بند کر دیا اور ایک سال تک قید میں رکھا۔اس واقعے کو اس کے معاصر مورخ یعقوب علی نے اس طرح بیان کیا ہے۔سردار عبدالرحمان لڑکپن میں بندوق چلانے کی مشق کیا کرتا تھا۔ایک دن شہر مزار شریف کے باہر نشانہ بازی کے دوران کہنے لگا،پتہ نہیں بندوق کی گولی سے آدمی مرتا ہے یا نہیں۔یہ کہہ کر ایک غلام کو بلوایا اور چند قدم دور کھڑا کر کے اس پر گولی چلا دی۔غلام مر گیا اور عبدالرحمان ہنسنے لگا۔جب اس کے باپ کو پتہ چلا تو اس نے نالائق بیٹے کو توپ خانے کی ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا۔امیر عبدالرحمان کی طبعیت میں غرور اور تکبر تھا ۔اس لئے اس کے کئی اقدامات غیر معتدل اور کئی پالیسیاں اسلامی اقدار کے مخالف تھیں ۔ملکی خزانہ خالی تھا۔ لیکن عوام پر نئے بے جا ٹیکس عائد کر دیے گئے اور کئی سابقہ ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا گیا۔چونکہ امیر عبدالرحمان کی طبعیت میں سختی ھد سے بڑھی ہوئی تھی اس لئے افغانستان کی پولیس اور عدلیہ عوام کو انصاف مہیاءکرنے کی بجائے شخصی اقتدار کے محافظ بنتے چلے گئے۔اس کے دور حکومت میں عوامی نمائندگی،شورائیت اور قبائلی عمائد و علماءکے اشتراک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔افغانستان میں امن و امان بھی ایسے ہی تھا جیسے کسی قید خانے میں۔عوام ہر وقت سہمی سہمی اور کوف زدہ رہتی تھی۔جو لوگ حکومت کے خلاف کچھ کرنے یا کہنے کے شبہے میں گرفتار کر لئے جاتے انہیں الزامات کی تصدیق سے پہلے ہی روایتی انگریزی تھانوں کی طرح مار پیٹ اور تشدد کے مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔
ہزاروں عتاب زدہ لوگ کال کوٹھڑیوں اور پھانسی گھاٹ کی نذر ہو گئے۔امیر عبدالرحمان کے دور حکومت میں ملزموں کو بیدار رکھنا،لاٹھیوں سے پیٹنا،الٹا لٹکا دینا،اعضاءکو داغنا،ہاتھ پاﺅں کا ٹ دینا،شکنجوں میں کس دینا اور توپ سے باندھ کر اڑا دینا عام سی بات ہو گئی تھی۔امیر عبدالرحمان خود قاضی کی طرح سزائیں تجویز کرتا اور مجرموں کو کسی پوچھ گچھ کے بغیر بد تریں مظالم کا نشانہ بنا کر اپنے ذوق و اذیت رسائی کو تسکین دیتا۔اس کی عدالت کا منظر بیان کرنے کے قابل ہے۔۔سخت سردی کے موسم میں چند افراد مجرموں کی حیثیت سے اس کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔پیش کار کہتا ہے حضور یہ کو ہ دامن کے چور ہیں۔امیر عبدالرحمان کسی سوال و جواب یا غور و فکر کے بغیر فیصلہ صادر کرتا ہے۔ان میں سے دو کو ذبح کر دو ،چار کے ہاتھ کاٹ دو،دو کی آنکھیں سی دو،تین کے پیٹ چیر دو۔ان کے بعد چند مزید مجرم لائے جاتے ہیں اور پیش کار پکار کر کہتا ہے۔یہ محمد کاظم کپڑے والے کی دوکان کے چور ہیں۔امیر فوری طور پر بغیر کسی ثبوت اور تفتیش کے فیصلہ سناتا ہے۔جن کے گھر وں سے کپڑا بر آمد ہوا ہے،ان کی آنکھیں پھوڑ کر ان میں چانا بھر دیا جائے اور اس تھانے کے کوتوال کو قتل کر دیا جائے۔یہ حقیقت ہے کہ ملزموں پر جرم ثابت ہونے سے پہلے ڈھائے جانے والے مظالم بھی اتنے سخت اور شدید ہوتے تھے کہ اکثر بے قصور لوگ نا کردہ جرائم کا اعتراف کر لیتے تھے۔اسی طرح ایک اور واقعہ میں کابل کے ایک شہری مرزا عبدالحکیم خان کو کسی الزام میں گرفتارکر کے شکنجے خے سامنے لایا گیا تو وہ بولا۔میں یہ تکلیف برداشت نہیں کر سکوں گا،آپ جو چاہے قبول کروالیں۔چنانچہ اس سے ایک سنگین نا کردہ جرم لکھوا کر دستخط لے لئے گئے اور اگلے دن توپ کے منہ سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔امیر عبدالرحمان کا تشکیل کردہ ادارہ ،شش کلاہ، بھی افغانستان کے عوام کے لئے بہت بڑا عذاب تھا۔یہ ادارہ ایک قسم کا احتساب بیورہ تھا۔جس میں چھ سخت گیر افسران متعین تھے۔اس کے ذریعے احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔اس دارے کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ افغانستان کے بڑے بڑے عمائد اور امراء صرف یہ سن کر ان کے خلاف ،شش کلاہ ، میں تفتیش کا آغاز ہونے والا ہے ۔ ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے لگے تھے-