سرزمین عرب کی قدیم تہذیب ایک پر اسرار راز

عالمی ماہرین آثارقدیمہ کی ایک ٹیم سعودی عرب کے آثارِ قدیمہ کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے لیے ایک ملک گیر جائزہ لے رہی ہے تاکہ وہاں کی ماضی کی پر اسرار تہذیب کے رازوں کو سمجھ سکیں۔ان میں نوبتین ثقافت کے زمانے کی کئی ایک پتھر سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کے نشان وہاں اب بھی باقی ہیں اور ان میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں اس سے پہلے کھدائی نہیں کی گئی ہے۔ٱلْعُلَا نامی ریت کا صحرا جو پتھروں سے بھرا ہوا ہے، اپنے سیاہ آسمان کی وجہ سے مشہور ہے کیونکہ اس کی فضائی آلودگی سے پاک تاریکی ستارہ شناس ماہرین کے لیے بہت موزوں ہے۔لیکن اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے لیے بھی یہ ایک پسندیدہ خطہ بن گیا ہے۔تاریخ میں گم ہوجانے والی نوبتین تہذیب اس خطے میں 100 قبل مسیح میں آباد ہوئی اور تقریباً 200 سال تک آباد رہی۔تاہم اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ اس خطے میں بیلجیئم جتنے بڑے رقبے کا عمیق جائزہ لینے یہاں آئے ہیں۔

60 ماہرین کی ایک بڑی بین الاقوامی ٹیم نے ابتدائی سطح کے کام کا آغاز کردیا ہے جس میں وہ سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے میں اس تہذیب کے مرکزی علاقے کے سوا تین ہزار مربع کلو میٹر رقبے کا جائزہ لیں گے۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ اتنا بڑا خطہ جس کا اب سے پہلے کسی نے جائزہ نہ لیا ہو اس پر ایک سائنسی انداز میں تحقیقی کام ہوگا۔اس تہذیب کا دارالحکومت اردن کے ایک علاقے پیٹرا میں قائم تھا، لیکن موجودہ سعودی عرب کا مدائن صالح بھی ان کے لیے کافی اہم تھا۔چٹانوں سے کاٹے ہوئے پتھروں پر نازک قسم کی کشیدہ کاری ان کی عمارتوں پر یونان اور میسوپوٹامیا کے تہذیبی اثرات ظاہر کرتی تھیں۔ وہ اپنے معبدوں کے سامنے والے حصوں پر مہین قسم کی سنگ تراشی سے دلچسپ نمونے بناتے تھے۔ نوبتین کندہ کاری کی کئی ایک مثالیں ہیں لیکن اس حوالے سے کسی قسم کے مواد کا کوئی علم حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ رومن بادشاہ ٹروجن کی فتح کے بعد ان کا ایک آزاد تہذیب کی حیثیت سے اختتام ہو گیا تھا۔

ماہرین کے مطابق اس سروے کی وجہ سے سعودی عرب کا شمار قدیمی تہذیبوں میں ہونا شروع ہو جائے گا۔اس سے پہلے فرانسیسی ماہرین نے اس علاقے میں کھدائی کا کام کیا تھا جس کے ذریعے انھوں نے لوبان اور اگر بتیوں کی تجارت کے غیر منظم رابطوں کو دریافت کیا تھا۔دو سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آثارِ قدیمہ سے وابسطہ جیمی کوارٹرمین اب تک 1150 کے قریب جگہوں کا سروے کر چکے ہیں۔ اسے عموماً نقصانات سے بچنے والا سروے کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں کوئی ایسا تعمیری کام نہ کیا جائے جو آثارِ قدیمہ کے قریب کیا جائے اور ان سے انھیں نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں