پنجاب کے جنوبی علاقوں میں خوشحالی کے ثمرات نہ پہنچنے سے جہاں اقتصادی پسماندگی بڑھتی جا رہی ہے،وہاں احساس محرومی نے شدت پسندی کو پنپنے کا موقع دیا۔فی زمانہ یہاں کے لوگ ہمیشہ سے لاہور اور اسلام آباد کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی الگ صوبہ یا سرزمین ہوں۔سرکاری اعدا شمار کے مطابق پنجاب کی مجموعی آبادی میں %40جنوبی اضلاع ملتان،مظفر گڑھ،لیہ،ڈیرہ غازی خان،راجن پور، رحیم یار خان اور بہاولپور میں رہتی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پنجاب میں کپاس کی مجموعی پیداوار کا% 48 فیصد ،گندم کا 41%اور گنے کا 38% فیصد جنوبی پنجاب سے آتا ہے۔پھلوں میں آم اور کھجور کا ذکر ہو اور اس خطے کا ذکر نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا۔ان علاقوں میں روزگار کا بڑا ذریعہ بھی ان فصلوں سے جڑی صنعتوں یعنی ایگرو انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ ان صنعتوں کا حجم اور تعداد علاقے میں روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ تاہم سرکاری سطح پر علاقے میں صنعتوں کے قیام اور روزگار سے جڑی سکیموں کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی اور سرکاری، نجی شبعے میں ملازمتوں میں اس علاقے سے نمائندگی بہت کم نظر آتی ہے۔۔سرکاری سطح پر جنوبی پنجاب کے اضلاع میں صنعتوں کے قیام اور روز گار سے جڑی سکیموں کا جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی،سرکاری اور نیم سرکاری نجی شعبے میں ملازمتوں میں اس علاقے سے نمائندگی بہت کم نظر آتی ہے۔ملک کی بیورو کریسی میں جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان،بہاولپور اور ڈی جی خان سے تعلق رکھنے والے افسران کی تعداد صرف 15%ہے۔موجودہ حکومت کی طرح ماضی کی حکومتیں بھی اس خطے کی قسمت سنوارنے کی باتیں کرتی رہی ہیں لیکن زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ایک غیر سرکاری اقتصادی تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آمدنی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لحاظ سے پنجاب کے پسماندہ تریں اضلاع مظفر گڑھ،لیہ،ڈیرہ غازی خان اور راجن پور ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے جاری اقتصادی پسماندگی اور غربت کی وجہ سے جنوبی پنجاب کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدان وفاقی اور صوبائی وزراء سے لے کر وزارت عظمی اور صدارات کے عہدوں تک فائز رہے لیکن بد قسمتی سے علاقے کی تقدیر نہیں بدلی۔جنوبی پنجاب میں جاگیردرانہ نظام نے معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کو کھوکھلا کیا ہے لیکن اقتصادی پسماندگی کا فائدہ وہ شدت پسند عناصر اُٹھا رہے ہیں جن کی جڑین رفتہ رفتہ جنوبی پنجاب میں سرائیت کر رہی ہیں۔وسائل معدنیات یہاں سے نکلے مگر مقامی لوگ مستفید نہیں ہوئے۔آنے والا مورخ جب لاہور اور جنوبی پنجاب کے شہروں کا موازنہ کرے گا، تو حکمرانوں کی بے تدبیری کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکے گا، جس صوبے کی بڑی آبادی جانوروں کے ساتھ دریاؤں اور نہروں کا پانی پیتی ہو، جہاں علاج معالجہ ایک خواب بن چکا ہو، جہاں سڑکیں ندارد اور سکول نایاب ہوں، جہاں سیوریج سسٹم کا کوئی تصور نہ ہو، وہاں اس صوبے کے دوسرے کنارے پر میٹروبس اور دیگر جدید ترین منصوبے بنے ہوئے ہوں، تو اس تفاوت کی توجیح کوئی کیسے پیش کرسکے گا۔ ایک طرف تو اپر پنجاب کے شہروں کے لئے جاری منصوبوں کے لئے اربوں روپے کے فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف جنوبی پنجاب کے دریاؤں اور نہروں پر گزر گاہیں بنانے کے لئے چند کروڑ روپے کے فنڈز بھی فراہم نہیں کئے جاتے ۔
