احمد شاہ درانی کی یاد گار زمزمہ توپ

· آتش پرست لوگ اپنی عبادت گاہوں میں آگ کی پرستش کرتے ہوئے یا نہاتے ہوئے آہستہ آہستہ جو الفاظ گنگناتے تھے، اسے بھی زمزمہ کہتے تھے۔ گانے کی اصطلاح میں ایک خاص آواز کے ساتھ گنگنانا بھی زم زمہ کہلاتا ہے۔ فارسی زبان میں شیر کی گرج کو بھی زمزمہ کہا جاتا لاہور میں پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے مرکزی دروازے کے قریب چبوترے پر ایک دیو ہیکل زنگ آلود توپ پڑی نصب ہے، جو کہ زمانے کا سرد گرم سہتے سہتے اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ حالانکہ ایک زمانے میں اس کے بارے میں مشہور تھا کہ جس کے پاس یہ توپ ہو لاہور شہر اُسی کا ہوگا۔ یہ توپ جس کے قبضے میں رہی پنجاب اُسی کے زیرِ تسلط رہا، فاتحین سب سے پہلے کانسی کی دھات میں ڈھلے اس عظیم شاہکار پر قابض ہوتے تھے زم زمہ توپ کی تیاری کا واقعہ بھی بڑا ہی دلچسپ ہے۔ احمد شاہ درانی کے دور میں ان کے وزیر اعظم شاہ ولی خاں نے دو بڑے سائز کی توپیں بنانے کا حکم دیا جن کی تیاری کے لیے جزیہ کے طور پر لاہور کے رہائشی ہر ہندو گھرانے سے دھات کا ایک ایک برتن حاصل کیا گیا۔
یہ شاید اس لیے تھا کہ ہندو پیتل کے برتن زیادہ استعمال کرتے تھے۔ پھر تانبے اور پیتل کے آمیزے کو ملا کر 1757ء میں ایک ہی سائز کی دو بڑی توپیں تیار کی گئیں- زم زمہ توپ کی تیاری کے بعد اس کی تھوتھنی پرایک فارسی عبارت کندہ کی گئی جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے ’’شہنشاہ دوراں شاہ ولی خاں کے حکم سے وزیر نے یہ توپ بنام ’’زم زمہ‘‘ بنائی جو قلعہ گیر ہے، عمل، شاہ وزیر‘‘ اس توپ کی پشت کے درمیان میں بھی ایک فارسی عبارت لکھی گئی جس کا ترجمہ یہ ہے ’’اس بادشاہ کے دورحکومت میں جو فریدوں کی شان و شوکت رکھتا ہے، تعریف وتوصیف کا حق دار اور عدل کرنے والا ہے۔ زمانے کا مولیٰ احمد شاہ، بادشاہ تخت کو تسخیر کرنے والا اور جمشید جیسی شان و شوکت کا مالک ہے۔ بادشاہ کے دربار سے بڑے وزیر کو یہ حکم ملا کہ ہر ممکنہ ہنر بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسی توپ بنائی جائے، جو اژدھے کی طرح خوفناک اور پہاڑ کی طرح بڑی ہو۔خانہ زاد، سپہر سریر شاہ ولی خاں وزیر معاملات نے اس حکم کی تعمیل میں نہایت بہترین کاریگروں کو جمع کیا اور یہ کام مکمل کیا۔ لہٰذا یہ عجیب و غریب زم زمہ توپ تیار ہو گئی۔ اتنی تباہ کن کہ آسمان کے درودیوار کو ہلا دینے والی۔ آخر کار اس کو بادشاہ کے حوالے کر دیا گیا۔‘‘ اس کے منہ کے سوراخ کی چوڑائی ساڑھے 9؍انچ ہے جب کہ توپ کی لمبائی14؍فٹ 4؍انچ ہے۔…۔ تانبے اور پیتل کی بنی اسی توپ کو سب سے پہلے احمد شاہدرانی نے1761ء میں پانی پت کی مشہور لڑائی میں استعمال کیا۔

واپسی کے سفر کے دوران اس کو اپنی والدہ کی بیماری کی اطلاع ملی لہٰذا اس نے اپنا سفر مزید تیز کرنے کی غرض سے ایک توپ تو اپنے ساتھ لے لی اور دوسری کو اپنے گورنر لاہور خواجہ عبید کے سپرد کر گیا – ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اس جنگ کے بعد احمد شاہ ابدالی کا بل جاتے ہوئے دوسری توپ کو اپنے ساتھ لے گیا اور زم زمہ توپ کو اپنے ساتھ نہ لے جا سکا کیونکہ وہ خاص قسم کی گاڑی تیار نہیں ہوئی تھی جس پرلاد کر اسے لے جایا جانا تھا۔ چنانچہ اس توپ کو لاہور میں موجود اپنے گورنر خواجہ عبید کے سپرد کرگیا۔ احمد شاہ درانی جو دوسری توپ اپنے ساتھ لے گیا تھا، وہ دریائے چناب عبور کرتے ہوے ریت میں توپ کے پہیے دھنس گئے اور احمد شاہ ابدالی چونکہ والدہ کی وجہ سے جلدی میں تھا اسلئے وہ اس کو وہیں چھوڑ گیا- زم زمہ توپ خواجہ عبید کے پاس ایک سال تک پڑی رہی- اس نے اپنا اسلحہ خانہ شہر سے باہر منتقل کر دیا تھا- ۔1762ء میں ہری سنگھ بھنگی نے لاہور پر حملہ کر دیا- اور توپ کو قبضے میں لینے کی جدوجہد شروع کر دی – ۔ مغل گورنر خواجہ عبید نے اپنا اسلحہ خانہ لاہور سے دو میل کے فاصلے پر موجود موضع خواجہ سعید (موجود کوٹ خواجہ سعید) میں بنا رکھا تھا۔ بھنگی سنگھ نے محاصرہ کر کے اسلحہ خانہ پر قبضہ کر لیا۔ اس اسلحہ خانہ میںزم زمہ توپ بھی شامل تھی۔ ہری سنگھ بھنگی کی وجہ سے ہی اس توپ کا نام ’’بھنگیوں کی توپ‘‘ پڑا۔1764ء تک یہ توپ یونہی شاہ برج میں پڑی رہی۔ پھر جب مہنہ سنگھ اور گوجر سنگھ بھنگی نے لاہور پر قبضہ کر لیا تو یہ توپ بھی اپنی تحویل میں لے لی۔ اور اس کے ساتھ متعدد لڑایاں لڑا-

زم زمہ توپ خواجہ عبید کے پاس ایک سال تک پڑی رہی۔1762ء میں ہری سنگھ بھنگی نے لاہور پر حملہ کر دیا۔ مغل گورنر خواجہ عبید نے اپنا اسلحہ خانہ لاہور سے دو میل کے فاصلے پر موجود موضع خواجہ سعید (موجود کوٹ خواجہ سعید) میں بنا رکھا تھا۔ بھنگی سنگھ نے محاصرہ کر کے اسلحہ خانہ پر قبضہ کر لیا۔ اس اسلحہ خانہ میںزم زمہ توپ بھی شامل تھی۔ ہری سنگھ بھنگی کی وجہ سے ہی اس توپ کا نام ’’بھنگیوں کی توپ‘‘ پڑا۔1764ء تک یہ توپ یونہی شاہ برج میں پڑی رہی۔ پھر جب مہنہ سنگھ اور گوجر سنگھ بھنگی نے لاہور پر قبضہ کر لیا تو یہ توپ بھی اپنی تحویل میں لے لی۔
مگر 1818ء میں ملتان کےآخری گورنر نواب مظفر خان سدوزئی کے قلعہ کے محاصرے کے موقع پر اسے کافی نقصان پہنچا۔ پھر یہ ٹھیک نہ ہو سکی اور اسے لاہور لا کر دلی دروازے کے باہر رکھ دیا گیا۔ زمزمہ 1870ء تک وہیں پڑی رہی۔ اسی سال لاہور میں ڈیوک آف ایڈن برگ کی آمد کے موقع پر اسے انار کلی بازار کے قریب رکھ دیا گیا۔ اس وقت سے یہ توپ وہیں پڑی ہے اور ہر آنے جانے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواتی ہے۔اس توپ کے متعلق ہندوئوں کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ توپ ہندوئوں کے دیو تائوں میں سے سب سے نمایاں دیوتا ’’مہاویو‘‘ کا اوتار ہے۔ اسی عقیدے کی مناسبت سے انگریز دور میں بعض ہندو اس توپ پر چڑھاوے چڑھاتے رہے۔

جب انگریز سکھوںکو شکست دے کر پنجاب پر قابض ہو گئے تو تقریباً 1250؍توپیں ان کے قبضے میں آئیں۔ ان میں سے 38؍پر فارسی کے اشعار کندہ تھے، انہی میں زمزمہ توپ بھی شامل تھی۔ انگریز عہد میں جب پرنس آف ویلز (ولی عہد شہزادہ) ہندوستان آیا تو زمزمہ کو عجائب خانہ کے باہر چبوترہ بنوا کر آرائش کے لیے نصب کر دیا گیا۔ بعدازاں 1977ء میں اس کو مال روڈ لاہور پر نمائش کے لیے نصب کر دیا گیا۔ لاہور کے عجائب گھر میں برطانوی عہد میں ایک انگریز ملازمت کرتا تھا جس کے بیٹے

اپنا تبصرہ بھیجیں