ایوب خان کی فوجی حکومت نے اپنے قیام کے تین ماہ کے اندر ہی 21 جنوری 1959 کو ایک کمیشن کا تقرر کیا جس کے سربراہ چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان تھے۔اس کمیشن کو یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ وہ جائزہ لے کہ کراچی (ملک کا پہلا دارالحکومت) پاکستان کے دارالحکومت کے لیے مناسب اور موزوں ہے کہ نہیں۔ کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کو ’ناموزوں‘ قرار دیا اور تجویز کیا کہ دارالحکومت کے لیے مناسب ترین مقام راولپنڈی کے قریب پوٹھوہار کی سطح مرتفع کا علاقہ ہے، یہ مقام راولپنڈی کے شمال مشرق میں ایک وادی ہے جس کے شمالی سمت پہاڑیوں کا ایک ہلال نما سلسلہ پھیلا ہوا ہے- رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ وادی ’سید پور‘ کے نزدیک ہے اور اس وادی میں شاہ عبداللطیف (بری امام) کا میلہ بھی لگتا ہے.
12 جون 1959 کو صدر مملکت نے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے صوبائی گورنروں، وفاقی کابینہ اور اعلیٰ حکام کا ایک خصوصی اجلاس نتھیا گلی کے پُرفضا مقام پر طلب کیا جس نے کمیشن کی اس تجویز کو اصولاً منظور کرنے کا اعلان کر دیا اور چھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جس نے 15 جولائی 1959 کو اپنی حتمی رپورٹ جاری کر دی اور اعلان کیا کہ اس نئے دارالحکومت کا رقبہ ایک سو مربع میل پر محیط ہوگا جس میں 14 مربع میل میں پارلیمنٹ اور مرکزی دفاتر تعمیر کیے جائیں گے۔ابتدائی منصوبے کے مطابق اس نئے دارالحکومت کی کل آبادی تین لاکھ ہونی تھی اور یہ قومی امنگوں کا آئینہ دار ہونا بھی قرار پایا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ یہ نیا دارالحکومت 10 سال میں تعمیر ہوگا اور اس کی تعمیر پر ہر سال 15 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔اب ملک کے اس مجوزہ دارالحکومت کا نام رکھے جانے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ چند دن بعد اس سلسلے میں مجید نظامی کی ادارت میں لاہور سے شائع والے ہفت روزہ جریدے ’قندیل‘ نے ایک اعلان شائع کیا۔اس اشتہار میں کہا گیا کہ ’پاکستان کا نیا دارالحکومت راولپنڈی کے قریب تعمیر کیا جائے گا۔ نئی آبادی ہو گی اور لازمی امر ہے کہ اس کا کوئی نام رکھا جائے گا، آپ اس کا کیا نام تجویز کرتے ہیں، ہم آپ کا تجویز کردہ نام شائع کریں گے، اگر قارئین کرام میں سے کسی صاحب کا تجویز کردہ نام حکومت نے منظور کر لیا یا حکومت کی کمیٹی نے بھی وہی نام رکھا جو قارئین کرام میں سے کسی نے تجویز کیا ہو تو ان صاحب کی خدمت میں ادارہ قندیل کی جانب سے ایک ہزار روپیہ بطور انعام پیش کیا جائے گا۔ اگر ایک سے زیادہ قارئین نے ایک ہی نام تجویز کیا تو ہم ان صاحب کا نام شائع کریں گے جنھوں نے سب سے پہلے ہمیں یہ نام بھیجا ہو گا۔انھیں ناموں میں ایک نام ’اسلام آباد‘ بھی تھا جو سب سے پہلے پنجاب کے شہر عارف والا میں رہنے والے ایک سکول ٹیچر قاضی عبدالرحمان نے تجویز کیا تھا۔24 فروری 1960 کو فیلڈ مارشل ایوب خان کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں تمام تجاویز کا جائزہ لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ وادی پوٹھوہار میں قائم کیے جانے والے پاکستان کے اس مجوزہ وفاقی دارالحکومت کا نام ’اسلام آباد‘ ہو گا۔ کابینہ کے اس فیصلے کا اعلان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کیا۔اُدھر ہفت روزہ ‘قندیل’ نے اپنا اعلان شائع کیا۔ مجید نظامی نے کوشش کی کہ قاضی عبدالرحمن کو ایک ہزار روپے کی انعامی رقم صدر مملکت یا کیپٹل کمیشن کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں دلوائی جائے، مگر جب ایسا ممکن نہ ہو سکا تو خود ادارے نے یہ رقم براہ راست قاضی عبدالرحمان کی خدمت میں روانہ کر دی۔ 11 مارچ 1960 کو قاضی عبدالرحمان نے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کو ایک خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ 24 فروری 1960 کو منظور ہونے والا نام ان کا تجویز کردہ تھا۔اس کے جواب میں 15 اپریل 1960 کو حکومت پاکستان نے قاضی عبدالرحمان کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر مملکت کے نام ان کا خط موصول ہوا جن کی ہدایت پر ان کا نام پاکستان کے اس مجوزہ دارالحکومت میں ایک پلاٹ پیش کیے جانے کے لیے درج کر لیا گیا ہے۔اس خط پر فیڈرل کیپٹل کمیشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبداللطیف کے دستخط تھے۔ (کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قیام یکم جون 1960 کو عمل میں آیا اور اس کے پہلے چیئرمین میجر جنرل یحییٰ خان تھے۔
قاضی عبدالرحمان یکم اکتوبر 1908 کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر سے کیا تھا اور تکمیل اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے کی۔ انھوں نے ضلع ساہیوال کے مختلف سکولوں میں طویل مدت تک تدریس کے فرائض انجام دیے اور 1968 میں بحیثیت ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔ان کا ایک نعتیہ شعری مجموعہ ’ہوائے طیبہ‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ وہ مختلف وقتوں میں اقبال فیروز الدین طغرائی امرتسری، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور مولانا ظفر علی خان سے اپنے کلام پر اصلاح لیتے رہے تھے۔ ان کی تحریریں زمیندار، اصلاح، چٹان، سیارہ، قندیل، نوائے وقت، سیارہ ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہی تھیں۔ قاضی عبدالرحمان اس خط کے لکھے جانے کے تیس سال بعد تک زندہ رہے۔ ان کی وفات 25 اپریل 1990 کو ہوئی مگر وہ زندگی بھر اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے صدر مملکت کے وعدے کے ایفا کے منتظر رہے۔