مرزا سلطان بیگ مغل خاندان کے چشم چراغ تھے۔ان کے والد مرزا غفور بیگ حیدرآبادکے معروف زمیندار اور رئیس تھے،ان کے پڑدادا مرزا ولی بیگ مغلوں کے شاہی خاندان میں سے تھے اور دہلی کے رئیس اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے مشیر خاص تھے۔جنہیں ایام غدر میں انگریزوں نے دہلی کے لال قلعہ میں پھانسی دے دی تھی۔مرزا ولی بیگ کے والد اورنگ زیب عالمگیر کی 9 ویں اولاد میں سے تھے۔
مرزا سلطان بیگ نے 1926میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ان دنوں انگریزوں کا دور حکومت تھا۔ان کے دل میں انگریزوں کے خلاف شدید نفرت تھی۔انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی میں انگریزوں کےخلاف ایک گروپ تشکیل دے کرآذادی کی جدو جہد کا آغاز کیا۔جو انگریزوں کے نزدیک برطانوی راج کے خلاف بغاوت تھی۔اسی دوران ان پر بغاوت کے متعدد مقدمات درج ہوئے اور انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔
مرزا سلطان بیگ نے افغانستان میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔اس وقت افغانستان میں غازی امان اللہ کی حکومت تھی۔انہوں نے کابل پہنچ کر اپنا خاندانی شجرہ شاہی محل میں جمع کروا دیا۔اور ساتھ ہی بادشاہ سے ملاقات کے لئے درخواست بھی دی۔دو دن بعد غازی امان اللہ نے مرزا سلطان بیگ کو کابل کے شاہی محل میں بلایا۔ان کا خاندانی شجرہ سامنے رکھ کر ان سے مغل قوم کے عروج و زوال سے لے کر ان کے مرزا ولی بیگ کو 1857ء میں دی جانےوالی پھانسی کی سزا تک مختلف سوالات کئے۔غازی امان اللہ نے ملاقات کے کچھ ہی روز بعد ان کے خاندانی وقار اور ؐ مغلیہ خاندان کے چشم چراغ ہونے کے پیش نظر کپتان کے عہدہ پر فائز کرتے ہوئے انہیں اپنا اے۔ڈی۔سی مقرر کر دیا۔
غازی امان اللہ مرزا سلطان بیگ سے افغانستان اور ہندوستان کے مابین مختلف امور پر مشاورت بھی کرتا تھا۔مرزا سلطان بیگ ایک عرصہ تک کابل میں مقیم رہے۔انہوں نے غازی امان اللہ کی بھتیجی سے شادی کی۔جب جنوری 1929 میں حبیب اللہ کلکانی عرف بچہ ثقاو انگریزوں کی مدد سے افغانستان کا حکمران بنا اور غازی امان اللہ جلا وطنی اختیار کر کے افغانستان سے یورپ چلا گیا تو مرزا سلطان بیگ اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ پشاور کے راستے واپس ہندوستان آگئے۔پشاور سے حیدر آباد دکن تک انگریز اینٹیلی جینس نے ان کا تعاقب کیا۔لیکن انہوں نے دوران سفر، خود کو گونگا ،بہرہ ظاہر کیا۔مرزا سلطان بیگ نے حیدر آباد دکن میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔اور اسی شہر میں 1960 میں ان کی وفات ہوئی