بابا ولی کندھاری کا ایک ہی وقت میں حسن ابدال پنجاب اور کندھار افغانستان سے تعلق رہا

اسلام آباد سے 54کلو میٹر پشاور روڈ پر حسن ابدال میں شاہراہ کے دائیں جانب ایک پہاڑی کی بلندی پر صوفی بزرگ بابا ولی قندھاری کی بیٹھک واقع ہے۔جہاں روزانہ صبح سے شام تک عوام کی ایک بڑی تعداد آتی ہے۔جبکہ بابا ولی قندھاری کا مزار افغانستان کے شہر قندھار سے 12کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے ارغنداب کے کنارے پر واقع ایک پہاڑی پر ہے۔بابا ولی قندھاری کی ایک بیٹھک ایران کے شہر میں بھی واقع ہے۔
حضرت بابا حسن ابدل کو قندھار میں بابا ولی اور دور دراز علاقوں میں بابا ولی قندھاری کہتے ہیں۔1809ءمیں برطانوی سیاح و مورخ Mountstuart Elphinstone حسن ابدال آیا۔وہ لکھتا ہے© حسن کا لقب ابدال تھا۔یہ قندھار کے مشہور ولی تھے۔وہاں انہیں بابا ولی کہتے ہیں۔1835ءچارلس ہیوگل (CHARLES HÜGEL)حسن ابدال آیا۔اس نے لکھا ہے قندھار میں ان کی بڑی قدرومنزلت ہے۔وہاں انہیں بابا ولی کہتے ہیں۔ضلع راولپنڈی کی 1865 ءکی بندوبست رپورٹ میں قصبہ حسن ابدال کا ذکر آیا ہے کہ پہاڑی کے اوپر بابا ولی معروف بہ حسن ابدال کی درگاہ ہے(صفحہ 5)۔آ ئین اکبری کے انگریزی مترجم بلا خمن نے 1873 ءمیں قندھار کے قریب مدفون حضرت بابا حسن ابدال کے بارے میں لکھا ہے کہ پنجاب میں اٹک کے مشرق میں قصبہ حسن ابدال کا نام ان کے نام پر ہے۔سکھ مورخ گیانی گیان سنگھ نے اپنی تواریخ گورو خالصہ(گور مکھی) میں ولی قندھاری کا نام حسن ابدال لکھا ہے(صفحہ 140) جبکہ آریانا دائرةالمعارف مطبوعہ کابل میں ،،بابا حسن ابدال،بابا ولی کے نام سے معروف ہیں(صفحہ3..4)

آریانا دائرة المعارف میں آ پ کی وفات 165ھ بیان کی گئی ہے اور آپ کو فضیل ابو مرزوی کا اور انہیں عبدالواحد بن یزید کا ،انہیں حسن بصری کا مرید بیان کیا ہے۔جبکہ بابا ولی قندھاری کے لوح مزار کی تحریر سے یہی ظاہر ہو تا ہے کہ انہوں نے حضرت ابراہیم بن ادھم کے سلسلہ طریقت میں خرقہ خلافت پایا۔موضع حسن ابدال سے ملحق جنوب میں موضع قندھاری پور بھی واقع ہے ممکن ہے یہ نام بابا ولی قندھاری کے نام پر رکھا گیاہو۔مگر بابا حسن ابدال کا یہ لقب بعد میں مشہور ہوا تھا۔اس علاقے میں قیام کے دوران آپ کو بابا حسن ابدال یا محض بابا ولی کہتے تھے۔یہاں سے جا کر آپ نے قندھار کے قریب مستقل سکونت اختیار کی تو یہاں والے آپ کوبابا ولی قندھاری بھی کہنے لگے۔قصبہ حسن ابدال۔ جو آپ کے نام سے مشہور ہوا۔ولی قندھاری کی پہاڑی۔آپ کے قیام کے دوران میں اس پہاڑی کا مقامی نام بابا ولی کی پہاڑی پڑاہو گا۔بعد میں بعد میں بابا گر گیا قندھاری کا لا حقہ لگ گیا۔تخت ابدال۔ولی قندھاری کی پہاڑی پر سطح سمندر سے 1557فٹ کی بلندی پر کوئی ایک کنال نیم ہموار جگہ کو تخت ابدال کہا جاتا ہے۔ممکن ہے یہاں بھی بیٹھ کر حضرت بابا حسن ابدال لوگوں سے ملاقات کیا کرتے ہوں۔اس جگہ سے موتی،سکے،منکے اور ٹھکریاں ملتی رہی ہیں۔لہذا کسی زمانے میں یہاں آبادی تھی.

1975ءمیں کابل یونیورسٹی کے شعبہ ادبیات کے پروفیسر عبدالحئی حبیبی ،، تاریخ حسن ابدال کے مصنف منظور الحق صدیقی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ۔ِِِِِِ،،، قندھار میں جو موضع بابا ولی قندھاری ہے مغل عہد حکومت میں اسے ہی موضع حسن ابدال کہتے تھے۔۔۔اس مقام کا قاموس جغرافیائی افغانستان میں کچھ اس طرح سے ذکر ہے۔۔۔بابا ولی۔۔قندھار کے شمال مغرب میں پونے پانچ میل کے فاصلے پر بابا ولی سڑک سے متصل ایک گاﺅں ہے۔اس کا محل وقع دلکش اور مناظر حسیں ہیں ۔یہاں کے باغ زرخیز ہیں ۔یہ علاقہ تازگی کے سبب قندھار کے رہنے والوں کی سیر گاہ بھی ہے۔اس گاﺅں میں پہاڑی دامن میں ایک زیارت گاہ بھی ہے۔جسے زیارت بابا ولی کہتے ہیں۔قندھار کے لوگ تفریح کی خاطر اور مزار مبارک کی زیارت کے لئے ہمیشہ وہاں جاتے ہیں۔(آریانا دائرة المعارف جلد چہارم،صفحہ 30)
آریانا دائرة المعارف کے مقالہ نگار نے آپ کے حالت زندگی پر مذید روشنی ڈالی ہے۔وہ لکھتا ہے،،،بابا ولی ،،،بابا حسن ابدال ،بابا ولی کے نام سے معروف ہیں ۔ان بزرگوار نے روحانیت کے مقام۔تذکیہ نفس اور صفائے قلب کے لحاظ سے زندگی میں اور وفات پانے کے بعد بھی بابا ولی کا خطاب پایا۔چنانچہ آج تک اسے خطاب سے معروف ہیں۔وہ سالک مجذوب تھے۔وہ ربیع الاول 920ھ میں فوت ہوئے۔او۲ر قندھار کے بلند تریں سر سبز و شاداب مقام پر دفن ہیں جو انہی کے نام (بابا ولی) سے مشہور ہے۔(جلد چہارم صفحہ 30)

اپنا تبصرہ بھیجیں