تاریخ کے گمشدہ اوراق سے تذکرہ میاں محمد شاہ دین ہمایوں کا

ایسے کئی شعراء ہیں جو وقت کے گزرنے کے اتھ ساتھ گمنامی میں چلے گئے ان کی شاعری تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ گئی۔ایسے ہی ایک شاعر ہمایوں تھے۔جن کے حالات اور اشعار بیان کئے جا رہے ہیں۔
۔میاں محمد شاہ دین ہمایوں مرحوم 2 اپریل 1868ء باغابانپورہ لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد مولوی نطام الدین ایک فاضل بزرگ تھے۔آپ کے دادامولوی قادر بخش فارسی اور عربی کے جید عالم تھے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں شاہی خاندان کے نوجوانوں کے اتالیقی پر مامور تھے۔طبیعت شعرو سخن کے لئے نہایت موزوں پائی تھی۔اور نادرتخلص کرتے تھے۔لیکن افسوس سے کہنا پرتا ہے کہ ان کا کلام کا مجموعہ ضائع ہوگیا۔
ہمایوں کی ابتدائی تعلیم باغبانپورہ میں ہوئی۔چھ برس کی عمر میں کلام مجید ختم کیا۔مڈل کے امتحان میں اول رہے۔اور انٹر کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول رہے۔بی اے کا امتحان لاہور میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔اور 1887ء میں انگلستان اعلی تعلیم کے لئے چلے گئے۔خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے انگلستان سے واپسی پر اپنی انگریزی اور اردو کی تقریروں کی وجہ سے داد وصول کی۔پھر عدلیہ کے شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔اور عارضی طور پر چیف جج کے عہدہ پر بھی پہنچ گئے۔سرسید احمد خان کی تحریک کے زبردست حمایتی رہے۔شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔انگلستان جانے سے قبل عشقیہ غزلیات لکھیں۔لیکن انگلستان سے واپس آنے پر رحجان بالکل تبدیل ہو گیا۔یہان تک کہ اپنی جوانی میں لکھا ہو مجموعہ اشعارضائع کردیا۔ہمایوں کی مستقل تصنیف کوئی نہیں۔ان کی وفات کے بعد اس نام سے آ پ کے صاحبزادہ میاں بشیر احمد نے اپ کی چند نظموں کو جمع کیا۔ان کے انتخاب کلام کے اشعار کچھ یوں ہیں۔۔

اے شاعران قوم زمانہ بدل گیا
پر مثل زلف یار تمہارا نہ بل گیا
پیٹو گے کب تلک سر راہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کر نکل گیا

ہمایوں نے 2 جولائی 1918ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے مرحوم کی تاریخ وفات لکھی ہے۔
در گلستان د ہر ہمایون نکتہ سنج
آمد مثال شبنم وچوں بوئے گل رمید
می جستہ عندلیب خوش آہنگ سال فوت
علامہ فصیح زہر چار سو شنید
(1336ھ)

ہمایوں کا انداز بیاں کچھ اس طرح بھی ہے
جدا ہونے کو تھی مقتل میں جب وہ جان بسمل سے
ہماری حسرتیں روئیں لپٹ کر تیغ قاتل سے
اپنی نظم وادی سندھ میں سندھ دھرتی کی خوبصورتی کو اپنے اشعار میں بیان کرتے ہیں۔
سندھ کی وادی پہ ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی
برقعہ اوڑھے اک دلہن بیٹھی ہے شرمائی ہوئی
سندھ کے نالے کی آہوں کا دہواں شاید اٹھا
کیسی تاریکی ہے سطح آب پرچھائی ہوئی
قاصد ابر آ رہا ہے لے کے ہاں پیغام فیض
بارگاہ ایزدی میں کس کی شنوائی ہوئی
سوئے مشرق ہے سر کہسار پر بارش کا زور
رحمت باری ہے گویا جوش میں آئی
اے ہمایوں فیض بارش سے کھلے ڈل کے کنول
کیوں ترے دل کی کلی ہے آج مرجھائی ہوئی

کیٹاگری میں : ادب

اپنا تبصرہ بھیجیں