سیماب اکبرآبادی 1880 میں آگرہ میں پیدا ہوئے، جو اس وقت اکبرآباد کے نام سے مشہور تھا۔اکبر آباد کی اس زمین نے سیماب سے پہلے بھی اردو شاعری کو اپنی بیش بہا خدمات نظیر اورغالب کی صورت میں عطا فرمائی تھیں۔ ان دو استاد شعرا کے کارنامے اردو شعر و ادب میں ایک رجحان ساز اور روایت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شعر و ادب کے تعلق سے ایسا ہی کچھ معاملہ سیماب کا بھی تھا۔ سیماب کو اپنے معاصرین اور اردو کے نئے شاعروں میں ایک نظریہ ساز شاعرکا درجہ حاصل ہے-سیماب کی غزلیات دل بستگی اور اثرپذیری کا مادہ رکھتی ہیں۔وہ ایسے مقام سے کچھ کہتے ہیں کہ دل میں نشتر کی طرح کھٹک جاتا ہے، جس سے تکلیف کے بجائے ایک طرح کی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ان کی غزلوں کا خمیر کلاسیکی شاعری کے بطن سے نکلاہے اور جدید شاعری نے اسے اپنا رنگ روپ عطا کیا ہے. سیماب اپنے طرز خاص اور فکر کے رنگین و رعنا نقوش سے اہل نظر کی کچھ اس طرح مدارات کرتے ہیں.
پھر اس کے بعد کوئی انقلاب ہو نہ سکا
تھا کہاں وقت کہ افسانۂ ہستی پڑھتے
صرف عنوان ہی عنوان نظر سے گذرے
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
تو نہیں تو رات ہے محروم سوزِ زندگی
شام ہی سے چاندنی روپوش ہے تیرے بغیر
نیند آ آ کر اچٹ جاتی ہے تیری یاد میں
تارِ بستر نشترِ آغوش ہے تیرے بغیر
زندگی تجھ سے عبارت تھی، مگر جب تو نہیں
زندگی کا اپنی کس کو ہوش ہے تیرے بغیر
پھول اِدھر کھلے ہوئے، داغ اُدھر بجھے ہوئ
سیماب کے مندرجہ بالا اشعار ان کی ذہنی اختراع اور فکری تنوع کی غمازی کرتے ہیں ۔ ان کے یہا ں خیال کی ادائگی کا انداز بے حدصاف اور سادہ ہے۔
’’ ان کے الفاظ و تراکیب کا بیشتر سرمایہ غرابت اور ثقالت سے پاک ، زبان کے تخلیقی حسن کا حامل ہے‘‘3
اس مختصر مقالے میں سیماب کے تمام کلام کی معنوی اور فنی خوبیاں اور خامیاں گنانا ممکن نہیں۔ تاہم مندرجہ بالا چند غزلوں کے متفرق اشعار سے ان کا رنگ تغزل سمجھنے میں کافی مدد مل سکتی ہے اور اس بات کا اندازہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ خیالات کی گہرائی اور گیرائی ، جذبات کی لطافت اور گداختگی، معنی کی نزاکت و پاکیزگی ، لب و لہجہ کی سبک روی اور زبان کا ستھرا پن، غزل کے اندر نئے امکانات پیدا کرنے اور اسے آگے بڑھانے میں کس قدر ممد و معاون ثابت ہوسکتاہے غزل کی حقیقت اور اس کی ضرورت پر سنجیدگی سے بحث کرتے ہیں۔ اس میں عصری رجحانات اور مسائل حیات کو پیش کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ خیال کی رنگینی و نزاکت کے ساتھ جذبے کی متانت و عفت کو متوازن رکھنا ہی اصل شاعری ہے۔ دوسری طرف وہ نظم کو غزل کا حریف یا مدّ مقابل ماننے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ بلکہ غزل گو حضرات سے نظم کو اپنا لینے اور اس کی ترقی و اشاعت میں کوشاں رہنے کی آرا کا اظہار کرتے ہیں۔
چنانچہ اس وقت یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی تاویل و تنقید کے لیے غزل بھی اسی قدر ضروری ہے ، جتنی کہ نظم، مگر ذرا دیر کے لیے چشم تصور سے اس وقت اور ماحول کا جائز لیجیے جب کہ سیماب اپنی شاعری کی ایک نئی راہ متعین کرنے جا رہے تھے۔ ایک طرف تو وہ داغ سے شرف تلمذ رکھتے تھے اور ان کے خون میں وہی معصومانہ تغزل اور خلوصِ شعری حرکت کر رہا تھا ، جو اساتذۂ قدیم کا ترکہ تھا ، اور دوسری جانب وہ نظم کے کیف و اثر سے اپنے ہم سفروں کا بدلا ہوا رنگِ ترنم دیکھ رہے تھے۔ ایسے نازک مرحلے پر یہ سیماب کا ذوق سالم اور وجدان ہی تھا جس نے ان کو نہ صرف افراط و تفریط سے بچا لیا اور نظم و غزل دونوں کے لیے وقف کر دیا ، بلکہ اچھے اور تعمیری ادب کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ چنانچہ سیماب کی حیثیت بطور ایک نظریہ ساز کے، تاریخی ہے اور نظم اور غزل ہی کی نہیں بلکہ نئے ادب اور پرانے ادب کی چپقلش کے اس دور میں میانہ روی اور اعتدال کے کئی جدید نظریات سیماب کی مثبت فکر اورروشن خیالات کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔
شاعر کو میسر نہیں ہوسکے۔ اور اس بڑی تعداد میں دو چار دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں شاگرد اچھی خاصی شہرت کے مالک ہیں۔ ان میں سے اکثر صاحب تلامذہ بھی ہیں۔ پروفیسر حامد حسن قادری نے صحیح کہا ہے ’’انھوں نے اپنے علاوہ اور بھی بہت سے طالبان فن اور تشنگان ادب کی ادبی تعمیر کی، جو بغیر کسی وسیلہ کے آج کے ادب کے ستون کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اور جو کل کے ادبی کارواں کے سالار قافلہ بنیں گے۔ بعض آج ہی بن چکے ہیں۔‘‘
اس سے بھی بڑھ کر یہ بات قابل توجہ ہے کہ سیماب کے اپنے کلام میں بقا اور ارتقا کی زبردست صلاحیت ہے اور ان کے کلام کے حسن تاثیر سے اصلاح تخیل اور شعر و ادب کی تہذیب و تزئین کا کام آئندہ بھی جاری رہے گا