شاعری کی سب سے زیادہ فطری اور سب سے زیادہ بے ساختہ اور سب سے زیادہ پاکیزہ صنف وہ ہے جس کے لئے
فارسی اور عربی لفظ غزل استعمال ہو تا ہے۔بہترین شعر ایک طور پر وہ ہے جو ضرب المثل بن جائے۔کسی شاعر کے مقبول ہونے کا ایک معیار یہ ہے کہ اس کے کتنے اشعار زبان زد ہو گئے۔یہی وجہ ہے کہ شفیتہ درجنوں اشعار ہیں جو خیال کی ہمہ گیری اور انداز بیان کی وجہ سے آج بھی زد عام ہیں۔شاعری میں وہی اشعار ضرب المثل بن جاتے ہیں۔اور اس طرح سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتے رہتے ہیں۔مختلف ماحول اور موقع محل پر مختلف معنی میں استعمال ہو کر بات چیت کرنے والے کے بیان کو موثر ترین بنا دیتے ہیں۔وہی اشعار ضرب المثل بن گئے جن کا طرز بیان عام فہم،سادہ اور دل نشیں ہو پڑھنے والے یا سننے والے کے کے حافظے پر نقش ہو جائے اور جو زندگی کے مختلف حقائق اور مسائل کی آسان لفظوں میں ترجمانی کرے۔بعض شعراء کے اکا دکا ہی شعر زبان زد و خاص و عام ہیں اور انہی اشعار کی بدولت ان کے نام زندہ ہیں۔یہ شعر اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے اکثر اصحاب نے سنے بھی ہو گے لیکن شاعر کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا۔ایسے چند اشعار کچھ یوں ہیں۔
بھانپ لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظررکھتے ہیں
(جوہر فرخ آبادی)
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
(مرزا اسد اللہ غالب)
اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
مجھ پہ احسان جو نہ کرتے تو یہ احسان کرتے
(آتش)
پگڑی اپنی یہاں سنبھال چلو
اور بستی نہیں یہ دلی ہے
(شاہ حاتم)
مجھ میں اور ان میں،سبب کیا جو لڑائی ہو گی
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی
(محمد امان نثار)
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
(خواجہ میر درد)
الٹی ہو گئیں سب تد بیریں،کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا،اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
(میر تقی میر)
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے،ہوتا ہے کیا
(میر تقی میر)
