نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کس نے دیا

فلمی شائقین خصوصاً نورجہاں کے مداحوں کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کب اور کس نے دیا۔

آج سے ٹھیک 75 سال پہلے 25 جون سنہ 1945 کو ہفت روزہ چترا میں اس فلم کا جو اشتہار شائع ہوا تھا اس میں نور جہاں کے نام سے پہلے ‘ملکۂ ترنم’ کا خطاب درج ہے۔ یہ اشتہار جناب سلطان ارشد کی وساطت سے دستیاب ہوا اور جناب رضا علی عابدی صاحب کی روایت کے مطابق اسے ضیا سرحدی نے تحریر کیا تھا اور نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب عطا کرنا بھی انھی کا کارنامہ تھا۔ بڑی ماں‘ کے فلم ساز اور ہدایت کار مسٹر ونائیک تھے۔ مسٹر ونائیک کے دو بچے بھی فلمی دنیا میں آئے تھے، ایک تو مشہور اداکارہ نندہ اور دوسرے ماسٹر سچن، جنھوں نے فلم ‘شعلے’ میں امام صاحب کے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں نورجہاں کے علاوہ میناکشی، ایشور لال، یعقوب اور ستارہ کے ساتھ لتا منگیشکر نے بھی ’بےبی لتا‘ کے نام سے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔نورجہاں کے بارے میں لکھی گئی اکثر کتب اور مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ نور جہاں کو یہ خطاب 1965 کی انڈیا پاک جنگ کے بعد صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے دیا تھا جبکہ زخمی کانپوری کی تحقیق کے مطابق نورجہاں کو یہ خطاب ان کے مداحوں نے فلم انتظار کے گیتوں پر دیا تھا۔مگر فلم ’بڑی ماں‘ کے اس اشتہار کی دستیابی کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے نور جہاں کو اٹھارہ سال کی عمر میں ملکۂ ترنم تسلیم کیا جا چکا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں