اردو ادب میں ایک نمایاں نام ز۔خ۔ ش۔ یعنی زاہدہ خاتون شروانیہ

انیسویں صد ی کے اوائل میں جن شاعرات نے اردو کی نظمیہ شاعری میں کمال حاصل کیا، ان میں ایک نمایاں نام ز۔خ۔ ش۔ یعنی زاہدہ خاتون شروانیہ کا ہے.ان کو اسلامی اقداروروایات سے دلی لگاؤ ہے،جس کا احساس ان کی نظموں کی قرأ ت سے ہوتا ہے۔ان کے یہاں مضامین کا تنوع بھی ہے،عصری حسیت اور عصری مسائل وموضوعات سے ہم آہنگی بھی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے۔ان کی نظمیہ شاعری میں نسائی حسیت کا بھر پور اظہار بھی ملتاہے۔ زاہدہ خاتون شروانیہ غالباً اردو کی پہلی شاعرہ ہیں جو اپنی مثبت فکر اور منفردطرز اداکی وجہ سے اتنی نمایاں ہیں کہ انھیں نہ تو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سرسری ذکر کرکے گزراجاسکتا ہے۔انیسویں صدی کی ابتداء میں ان کی تاریخی نظموں نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی-

ز۔ خ۔ ش۔کا اصل نام زاہدہ خاتون شروانیہ ہے، لیکن رسائل وجرائد میں ز خ ش کے نام سے ہی ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں اور ادبی دنیا میں بھی وہ اپنے اسی مخفف نام سے جانی جاتی ہیں۔ان کاشاعری کا ذوق فطری تھا۔ دس برس کی عمر سے ہی انھوں نے اشعار کہنا شروع کردیاتھا اور اس وقت کے معیاری رسائل وجرائد ’زمیندار ‘ لاہور ’خاتون ‘ علی گڑھ ’تہذیب نسواں،اخبار النساء، شریف بی بی،نظام المشائخ،کہکشاں ’لاہور‘ اور ’ستارۂ صبح ‘ وغیرہ میں ان کی شعری اورنثری کاوشیں اشاعت پذیر ہوئیں۔انھوں نے شاعری میں پہلے ’گل ‘ اور بعد میں ’نزہت ‘ تخلص اختیار کیا۔ان کے گھر کا ماحول علمی اور ادبی تھا۔ہوش سنبھالتے ہی ز۔خ۔ ش۔ کا گھر کے ادبی ماحول سے متاثرہونا فطری تھا۔ان کی بڑی بہن احمدی بیگم اور چھوٹا بھائی احمد اللہ خان کو بھی شعروادب سے خاص دلچسپی تھی۔

8دسمبر 1894میں بھیکم پور،علی گڑھ (اتر پردیش ) میں زاہدہ خاتون شروانیہ کی ولادت ہوئی اور زندگی کی بہت کم بہاریں دیکھنے کے بعد محض 27سال کی عمر میں 2فروری 1922کو ان کا انتقال ہوگیا۔ان کے ادبی کارنامے کی مدت صرف سترہ سال پر محیط ہے۔لیکن سترہ برس کی قلیل مدت میں انھوں نے جو ادبی اور تخلیقی سرمایہ چھوڑا ہے، اس کے مطالعے سے ان کی افتاد طبع اور ان کی تخلیقی اٹھان کا اندازہ ہوتا ہے۔’آئینہ حرم ‘ اور ’فردوس تخیل ‘ ان کے مجموعہ کلام ہیں۔ ’رویائے صادقہ ‘ کے نام سے انھوں نے ایک مثنوی بھی تحریر کی ہے۔ ’دیوان نزہت ‘ (نزہت الخیال )کے نام سے ان کا دیوان بھی منظر عام پر آیا۔’قید فرنگ، گنج شہیداں، اضغاث احلام، عالم نسواں میں انقلاب، بہنوں سے دودو باتیں،مہذب بہنوں سے خطاب، اور چیست یاران طریقت،بعد ازیں تدبیر ما! آئینہ حرم، تصادم رواج وشرع،دام فریب،قدوم میمنت ملزوم،اور ثمر کا شجر کا خطاب‘ان کی مشہور نظمیں ہیں۔‘ز خ ش کی نظمیہ شاعری روایتی اسلوب کی پابند ضرور ہے لیکن اس میں مضامین کی رنگارنگی بھی ہے.

انتہائی کم عمر پانے کے باوجود ز۔خ۔ش نے نظمیہ شاعری کا جو قیمتی اثاثہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ان کی وقیع شعری خدمات کو جمیل الدین عالی نے کرامت سے تعبیر کیا ہے،وہ لکھتے ہیں۔ ’اس دور جہالت کی ماری ہوئی حیرت انگیز خاتون نے صرف 28 برس کی عمر پائی اور اتنا کچھ لکھ گئی۔یہ شاعرہ قدرت کی ایک کرامت کہی جاسکتی ہے۔(اور میں معجزہ کہتے کہتے رک گیا ہوں )سچ تو یہ ہے کہ اس کے والد نواب سرمزمل اللہ خاں شروانی (علی گڑھ کے حوالے سے ہندوستان کی بہت مشہور شخصیت)نے گھر میں ہی ان کی اعلیٰ تعلیم کاانتظام کر رکھا تھا۔

ئینہ حرم‘ زاہدہ خاتون شروانیہ کا اولین شعری مجموعہ ہے،جو1931میں دارالاشاعت پنجاب، لاہور سے شائع ہوا۔یہ ان کی مختصر نظموں کا مجموعہ ہے۔ 39صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ایک حمد کے علاوہ 9نظمیں ہیں۔ اس مجموعے کی تمام نظموں میں قوم کی اصلاح اوراس کی بہتری کا جذبہ کارفرما ہے۔مجموعے کی بیشتر نظمیں خطابیہ آہنگ لیے ہوئے ہے۔مجموعے کاانتساب خاص طورپر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔انتساب میں قوم وملت کے تئیں شاعرہ کی دردمندی کوبھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔زاہدہ خاتون نے مجموعے کی نظموں کو آنسوؤں کی لڑی سے تعبیر کیا ہے۔ملاحظہ کریں۔ ’’یہ آنسوؤں کی لڑی،یہ دردکی تڑپ، یہ سوزش کی آہ،ہاں ایک فریادی کااسترحام،ایک ناشاد کی نوحہ گری،ایک زخمی کی چیخ،یعنی کتاب آئینہ حرم،اسلام کے اس سچے شیدائی،تعلیم نسواں کے اس زبردست حامی کے نام نامی منسوب ومعنون کی جاتی ہے جس کا فیضان تربیت اس مجموعہ پریشان خیالی کی تسوید وتنشید کا معنوی سبب ہے اور جس کی قومی محبت وراثتی اثر ونسلی خصوصیت کے طورپر خاکسار مصنفہ کی رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔‘‘انتساب کا ایک ایک لفظ رقت آمیز و درد انگیزہے،جسے پڑھ کر قاری کے لوح دل پر دردوغم کی وہی لہریں مرتسم ہوتی ہیں جس سے شاعرہ کا ربطِ خاص رہا ہے.

ان کا یہ ماننا ہے کہ دشوار راہوں کا سفر مشکل ضرور ہوتا ہے،لیکن عزم جوان ہو اورحوصلہ بلند ہو تو مشکلیں بھی آسان ہوجاتی ہیں۔اشعار ملاحظہ کریں ؂
سناہے ہم نے دورِ عیش وعشرت آنے والا ہے
ہوئی کافور ظلمت اب اجالا ہی اجالا ہے
یہ دونوں لفظ و معنی کی طرح ملزوم ولازم ہیں
یہ گل،وہ شاخ،یہ جاں،وہ بدن،یہ مے، وہ پیالا ہے
نہ سمجھو دل کو تم بے غم،نہ سمجھو غم کو معمولی
ہمارا درد بے پایاں، ہمارا زخم آلا ہے
زاہدہ خاتون شروانیہ نے قطعات ورباعیات کے علاوہ اساتذہ میں غالب اور اقبال کے کلام کی تضمین بھی کی ہے۔تضمین نگاری میں بھی انھوں نے فنی حرمت کا پاس ولحاظ رکھا ہے۔ان کے اشعار حسن معنی اور حسن اظہار دونوں اعتبارسے چونکاتے ہیں۔
کلام غالب کی تضمین:
درد الفت یونہی تھا رگ رگ میں ساری ہائے ہائے
کیوں لگایا پھر وفا کا زخم کاری ہائے ہائے
دنیا میں زحمت کش دنیا کوئی دن اور
ہے طوعاً وکرہاً مجھے جینا کوئی دن اور
تھا صبرو سکوں تم کو بھی زیبا کوئی دن اور
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

ہندوستان میں شروانی خاندان کاشمار ہمیشہ سے معزز اور باوقار خاندان میں ہوتا رہا ہے،چونکہ منصب اور امارت کے ساتھ ساتھ علم وادب میں بھی اس خاندان کے افراد پیش پیش رہے ہیں۔مولوی حبیب الرحمن خاں نواب صدر یار جنگ کا تعلق اسی شروانی خاندان سے ہے۔ ان کی علمیت ولیاقت سے بیشتر لوگ واقف ہیں۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف وتالیف کیں،وہ ’الندوہ ‘ کے مدیر بھی رہے۔نظام دکن نے ان کی ملی خدمات،علمی استعداد اور انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں 1918میں صدرالصدور کے عہدے پر فائز کیا اور 1922 میں نواب صدر یار جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ حبیب الرحمن خاں شروانی کو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے اولین وائس چانسلر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد کی قربت بھی حاصل رہی، ایام اسیری کے دوران مولانا آزاد نے ان کو جو خطوط لکھے،وہ ’غبار خاطر ‘ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں اور وہ اردو میں ادب العالیہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
زخ ش کے والد نواب مزمل اللہ خاں کا شمار بھی شروانی خاندان کے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے۔نواب مزمل اللہ خاں ذاتی حوالے سے بھی معروف اور ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔1820 میں بھیکم پور علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ سرسید کاقائم کردہ ادارہ’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں عربی،فارسی اور انگریزی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔سرسید سے قربت کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں حصہ لیااور 1886 میں ایم اے او کالج کے ٹرسٹی منتخب ہوئے۔ 1910 سے 1913 تک کالج کے سکریٹری کے طورپر خدمات انجام دیں،جبکہ 1918 میں آپ کو بورڈ آف ٹرسٹیز کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔1904 میں انھیں ’خان بہادر‘ 1910 میں ’نواب ‘اور پھر ’سر ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔زندگی بھر قومی اور ملی خدمات انجام دینے کے بعد 28ستمبر 1938کو اپنی جان،جان آفریں کے سپر کردی۔
ز خ ش کی والدہ حجازی بیگم کا تعلق بھی ایک صاحب ثروت اور متمول خاندان سے تھا۔علی گڑھ کے مضافات میں واقع بوڑھ گاؤں کے رئیس حاجی کریم اللہ کی وہ صاحبزادی اور عنایت اللہ خاں کی نواسی تھیں۔محمد عنایت اللہ خاں رشتے میں مزمل اللہ خاں کے حقیقی چچا بھی تھے۔حجازی بیگم ان کی عم زاد بہن تھیں۔محمد عنایت اللہ خاں خود بھی علم دوست انسان تھے اور سرسید کے قریبی حلقۂ احباب میں تھے اور ان کی اعانت میں پیش پیش رہتے۔یونیورسٹی میں ان کی بہت سی یاد گاریں ہیں۔پکی بیرک کے کئی کمروں کے علاوہ اسٹریچی ہال میں ان کے نام کی تختی نصب ہے۔ کالج میں ایک بڑا کنواں اور ایک فوارہ ان کی یاد گار ہے-

کیٹاگری میں : ادب

اپنا تبصرہ بھیجیں