ملتان کا قدیم نام فرج بیت الذہب( سونے کا گھر)اور روایات بت پرستی

محمد بن قاسم نے جب ملتان فتح کیا تو اسے اس فوج کشی کی بابت کل 6 کروڑ درہم دیئے گئے تھے۔جبکہ محمد بن قاسم کی طرف سے خزانے میں جو رقم داخل ہوئی وہ پوری 12 کروڑ درہم تھی-ملتان کے بت خانے میں عربوں کو جو خزانہ ملا اس کی دنیا میں بڑی شہرت ہوئی۔یہاں تک کہ عربوں کی عام اصطلاح میں اس شہر کا اصلی نام چھوٹ گیا اور”فرج بیت الذہب”(عربی زبان میں اس کے معنی سونے کے گھر کی برکت اور فتوح کے ہیں) کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ملتان کے مندروں کی نسبت عجیب قسم کے اعتقادات تھے۔ہندوستان کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے لوگ طویل اور دشوار سفر طے کر کے ملتان آیا کرتے تھے۔ان دنوں ملتان میں دو بڑے مندر تھے۔ایک تو وہی خزانے والا جو خاص شہر کے اندر بڑے بڑے بازاروں کے درمیان میں واقع تھا۔اور ایک دوسرا جو شہر کے باہر مٹی کے ٹیلوں کے دامن میں واقع تھا۔یہ دوسرا بت خانہ مغربی ہندوستان کا مرکز تھا۔ہندوستان کے ہندووں کے دل میں اس مند کی بہت عزت اور احترام تھا۔لوگ دور دور سے نذرانے لے کر آیا کرتے تھے۔عورتیں اس کے نام کی نزریں اور منتیں مانتی تھیں۔اہل سندھ بڑے جوش و خروش سے اس کے گرد طواف کیا کرتے تھے۔طواف سے پہلے ہر سندھی پر لازم تھا کہ وہ اپنے سر کو بال منڈھوائے۔جس وقت مسلمانوں نے ملتان پر قبضہ کیا اس وقت 6 ہزار پنڈت ان کے ہاتھوں گرفتار ہوئے جو اس بت خانے کی خدمت پر ہر وقت مامور تھے۔ملتان کے ہندو حاکم کے لئے یہ مندر ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ تھا۔جنوبی ہند کے زائرین عود قماری لاتے تھے اور اپنے دیوتا پرچڑھاتے تھے۔اور یہ عود اس قدر قیمتی چیز تھا کہ فی من دو سو دینار پر فروخت ہو تا تھا۔اس مندر میں دو مورتیں رکھی گئی تھیں اور مشہور یہ تھا کہ ان کے بنانے میں کسی طلسمی قوت سے بھی کام لیا گیا ہے۔اگر کوئی اس پر ہاتھ رکھتا تو یہ بھی معلوم نہیں ہو تا تھا کہ اس نے کسی چیز کو چھوا ہے۔ایک چاندی اور دوسری سونے کی بنی نظر آتی تھی۔اس مندر کے کے متصل ایک چھوٹا سا چشمہ نظر آتا تھا۔جس سے ہر وقت دن رات زنگاری رنگ کا پانی جاری رہتا تھا۔جو نہایت ہی سرد ہوتا تھا۔ہندووں کا اعتقاد تھا یہ پانی زخموں کے لئے شفاء کی حیثیت رکھتا تھا۔اہل سندھ اور اہل ہند اپمی اور اپنے کاندان کی اس میں بڑی عزت سمجھتے تھے کہ اپنی پیاری بیٹیوں کو دیوتا کی نذر کر دیں۔ان نزر کی گئی لڑکیوں کو ” مرلیاں” کہا جاتا تھا۔ہزارہا لڑکیاں ان بتوں پر وقف تھیں جن کا پیشہ زنا کاری تھا۔ان کے لئے زنا عیب نہ تھا بلکہ فخر سمجھ کر کرتی تھیں۔ان کی زنا کاری کی اجرت پرمندر کے اکثر خدام اپنی زندگی بسر کرتے تھے۔یہ لڑکیاں آفت روزگار تھیں۔سینکڑوں آدمی ان کی زلف گرہگیر کے اسیر ہوا کرتےتھے۔ وہ بت خانہ جس سے محمد بن قاسم نے خزانہ نکالا تھا وہ دیکھنے میں ایک عالی شان محل نما تھا۔نہایت گھنی آبادی کے اندر اس کا بلند گنبد آسمان سے باتیں کرتا نظر آتا تھا۔اس کے ارد گرد پو جاریوں کے رہنے کے لئے مکانات بنے ہوئے تھے۔اور مورت اس درمیانی گنبد کے اندر ایک پختہ چبوترے پر گویا دو زانو بیٹھی ہوئی تھی۔اسے سرخ کپڑے پہنائے گئے تھے۔اور اس کثرت سے کہ سوائے آنکھوں کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔آنکھوں کی جگہ دو ہیرے جڑے ہوئے تھے۔سر پر سونے کا تاج تھا۔مٹھیاں بھینچی ہوئ تھیں اور دونوں ہاتھ زانو پر رکھے تھے۔محمد بن قاسم نے اپنی فیاضانہ رحمدلی سے ان مندروں میں کسی کا دخل نہیں دیا تھا۔بلکہ مسلمانوں کے زمانے میں بھی برابر اس کی پرستش جاری رہی۔چنانچہ ملتان کے مسلمان فرمانرواؤں نے یہاں کے مندر سے بہت برا پولیٹکل فائدہ حاصل کیا۔جب کبھی ہندوراجہ ملتان فتح کرنے کے لئے اس جانب پیش قدمی کا ارادہ کرتے تو مسلمان شہر کے دروازے بند کر کے حملہ آوروں کو دھمکی دیتے کہ اگر تم نے لڑائی سے ہاتھ نہ روکا تو ہم تمہارے دیوتا کو توڑ ڈالیں گےاور اس کی آنکھیں پھوڑ دین گے۔ان باتوں کو سنتے ہی ہندو راجہ کانپ اٹھتے تھے اور مجبور ہو کر واپس چلے جاتے-

اپنا تبصرہ بھیجیں