آب آب کر مر گئے سرہانے دھرا رہا پانی

ب الا مثل کے پس منظر میں کوئی حقیقی اور سچا واقعہ ہو تا ہے جو ایک حقا ئق کو عیاں کرتا ہے۔موجودہ زمانے میں ضرب الامثال کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے جس سے ادب ادھورہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ے ہیں کہ ایک ہندوستانی کمانے کھانے کے لئے کابل گیا۔وہاں فارسی زبان سیکھ لی اور خوب قابلیت پیدا کر لی۔جب وطن کی محبت نے کھینچا تو اپنے وطن لوٹ آیا۔گھر آتے ہی بیمار پڑ گیا۔یہاں تک کہ بچنے کی آس نہ رہی۔بستر مرگ پر پیاس کی شدت سے آب آب پکار رہا تھا۔چونکہ گھر والے فارسی نہ جانتے تھےاس لئے کسی نے اسے پانی نہ دیا۔یہاں تک کہ اس نے جان دے دی۔بعد ازاں اس کے گھر والوں کو معلوم ہوا کہ فارسی زبان میں آب کو پانی کہتے ہیں اور وہ پانی مانگ رہا تھا۔حالانکہ پانی سرہانے ہی رکھا ہوا تھا مگر لا علمی سے کسی نے پانی نہ دیا۔اس وقت کسی نے افسوس سے یہ کہہ دیا” کابل گئے بانیا سیکھی مغل کی زبانی
آب آب کر مر گئے سرہانے دھرا رہا پانی”.

کیٹاگری میں : ادب

اپنا تبصرہ بھیجیں