بلوچستان کے علاقوں نوشکی سے دالبندین تک صدیوں سے جاری توہمات جو یہاں کی روایات کا حصہ بنتی گئیں پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئیں۔ اس خطہ کے بلوچ قبائل روز مرہ کی زندگی میں یقین کی حد تک ان پر عمل کرتے تھے۔یہ توہمات دلچسپی سے خالی نہیں لیکن اس کے باوجود آج بھی بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کی معاشرتی زندگی کا حصہ ہیں۔جیسا کے یہاں کے لوگوں کا یقین تھا کہ اگر لومڑی دائیں جانب سے مسافر کا راستہ کاٹے تو اسے منحوس مانا جاتا تھا۔اور مسافر کوکچھ عرصہ کے لئے لازمی رکنا پڑتا تھا۔اگر ایک سانپ راستے سے گزر رہا ہوتا تھا تو راہگیر اسے مارنے کی بجائے اس کے گزرنے کا انتطار کیا کرتے تھے۔
لومڑی کی آواز(مقامی طور پرکور کور) مبارک سمجھی جاتی تھی اور مقامی بلوچ قبائل کا یقین تھا کہ لومڑی کا اس طرح سے آواز نکالنا بارش برسنے کی خبر ہے۔لیکن اگر لومڑی “وا وا” کی آواز میں چلاتی تو اسے کسی بڑی مشکل یا پھر موت کے آنے کی خبر سمجھا جاتا تھا۔یہاں کے قبائل کو اس پر اتنا اعتقاد تھا کہ قدیم ایام میں بڑے بڑے لشکر بھی لومڑی کی اس منحوس آواز سن کر کئی دن تک کے لئے ایک ہی مقام پر ٹھہرجایا کرتے تھے-اسی طرح آزمائش بذریعہ آتش کا رواج عام تھا جو کسی مشکوک چور کی بے گناہی یا جرم کا فیصلہ کرنے کا طریقہ تھا۔ملزم کو کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں جلتا ہوا لوہا پکڑے یا پھر ابلتے ہوئے گھی کی پیالے میں سے انگوٹھی نکالے۔اگر وہ اس آزمائش میں بلا ضرب یا تکلیف پورا اترتا تو اس کی بے گناہی ثابت ہو جاتی اور الزام تراش کو اسے بطور معاوضہ ایک اونٹ دینا پڑتا اور قبائلی سردار کو بھی ایک اونٹ دینا پڑتا۔مقدمہ چلانے یہ طریقہ بلوچ قبائل میں 1870ء تک رائج تھا۔بلوچ قبائل میں نطر بد کو بد روحوں کی قوت تصور کیا جاتا تھا-اسی طرح جب فصل کی کٹائی پوری ہو چکی ہوتی تھی تو جہاں اناج پڑا ہو تا تھا اس کے ارد گرد ننگی تلوار کی نوک سے ایک لکیر کھینچ کر تلوار اناج کے اوپر رکھ دی جاتی تھی اور لکڑی کے ایک ٹکڑے پر کلمہ طیبہ لکھ کر اناج کے بیچ میں گاڑھ دیا جاتا تھا..