بلوچستان میں مہمان نوازی ایک قدیم روایت ہے

جون 1810ء کا واقعہ ہے جب بلوچستان ابھی تک انگریزوں کی عملداری میں نہیں آیا تھا۔ہنری پوٹینگر نام کا ایک انگریز فوجی افسراپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نوشکی کے نزدیک سے گزرا تو اسے مقامی بلوچ افراد نے گھیرے میں لے لیا۔انہیں اس بات کا خطرہ تھا کہ بلوچ ان پر حملہ آور نا ہو جائیں۔اسی دوران ایک ایرانی کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے صورتحال دیکھتے ہوئے انگریز اور اس کے ساتھیوں کو یہ مشورہ دیا کہ یہاں سے نزدیک ہی رخشانی سردار کا مہمان خانہ ہے-اگر تم لوگ خود کو ان لوگوں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو وہاں چلے جاو۔جب شام کو سردار آ جائے گا تو وہ تمہیں ایک رہنما مہیاء کر دے گا- ایرانی شخص کی اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے جیسے ہی انگریز رخشانی سردارکے مہمان خانے کی حدود میں داخل ہوئے،وہ بلوچ جو ان پر حملہ کی نیت کئے ہوئے تھے۔ایک دم سے مہربان ہوتے نظر آئے۔ہنری پوٹینگر اوراس کے ساتھیوں کے لئے دری بچھائی گئ اور ان کے آرام کے لئے تکیے لائے گئے۔اور وہ تمام سردارکے مہمان کے طور پر ان کا احترام کرنے لگے-یہاں تک کہ ایک دو آدمی ان کے گھوڑے اور اونٹ کو چرانے کے لئے باہر لے گئے-شام کو رخشانی تمن کے سردار کے گھر سے گرم گرم روٹیاں اور سالن بھجوایا گیا۔غروب آفتاب کے بعد سردارمہمان خانہ میں آ کر انگریز اور اس کے دیگر ساتھیوں کو ملا اور اس نے کہا کہ حالات جو بھی ہوں اب تم لوگ میرے مہمان ہو اور آرام سے یہاں رہو۔یہ میرا فرض ہے کہ میں تم لوگوں کی حفاظت کروں۔اس واقعہ سے انگریزوں کو بلوچ سرادر کی مہمان نوازی کی روایت کو تسلیم کرنا پڑا۔ہنری پوٹینگر نے اپنی تحریر کردہ کتب میں بھی خصوصی طور پر اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں