داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے

ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے۔جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ان کے شاگرد نواب عبداللہ خان مطلب نے کہا:آپ جا رہے ہیں ۔جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جائیے۔یہ سن کر داغ نے بلا تامل کہا۔ ” داغ کیا کم ہے نشانی کا یہی یاد رہے”..

مرزا داغ کے شاگرد احسن مارہروی اپنی ایک غزل پر اصلاح کے لئے ان کے پاس حاضر ہوئے۔اس وقت مرزا صاحب کے پاس دو تین دوستوں کے علاوہ ان کی ملازمہ صاحب جان بھی موجود تھی۔جب احسن نے شعر پڑھا۔۔۔کسی دان جا پڑے تھے بیخودی میں ان کے سینے پر۔۔بس اتنی سی خطا پر ہاتھ میرے پتھر سے۔۔۔
اس پر صاحب جان جو ایک صحبت یافتہ اور حاضر جواب طوئف تھی بولی۔۔۔۔احسن میاں بے خودی میں بھی آپ دونوں ہاتھوں سے کام لیتے ہیں۔اس پر سب کھل کھلا کر ہنسنے لگے اور مرزا صاحب نے احسن سے کہا۔لیجئے صاحب جان نے آپ کے شعر کی اصلاح کر دی۔۔کسی دن جا پڑا تھا بیخودی میں ان کے سینے پر۔۔۔۔بس اتنی سی خطا پر ہاتھ کچلا میرا پتھر سے۔۔

کیٹاگری میں : ادب

اپنا تبصرہ بھیجیں