جنوبی پنجاب کے شہر لیہ میں پیدا ہنے والے بین الااقوامی سائیکلسٹ کامران علی کےوالد کی لیہ میں پرانے ٹائروں کی ایک دکان تھی جہاں وہ ٹائروں کو پنکچر لگاتے تھے۔دکان پر کامران علی بھی ان کا ہاتھ بٹاتا رہتا تھا۔ والد صاحب کو شوق تھا کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ جائے اور ان سے محتلف پیشہ اپنائے۔ اس لیے لیہ سے ہی انٹر کی اور پھر ملتان چلا گیا جہاں پر کامران علی نے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی اور پھر ایم ایس سی کی۔ اس کے بعد اس کا جرمنی میں داخلہ ہو گیا اور وہاں جا کر اس نے ماسٹرز اور پھر وہیں سے پی ایچ ڈی کی۔ بچپن میں جب کامران علی 12 یا 13 سال کا تھا تو ایک دفعہ اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ کسی اور دوست کی سائیکل پر 12 ربیع الاول کے دن لیہ سے 26 کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی جگہ چوک اعظم گیا جہاں 12 ربیع الاول کا ایک پروگرام ہو رہا تھا۔ اس سفر میں ایک اور کلاس فیلو بھی شریک ہو گئے، ایک آگے بیٹھ گیا اور ایک پیچھے اوراس نے 12 سال کی عمر میں ہی دو لڑکوں کو سائیکل پر بٹھا کرسفر کا آغاز کیاراستے میں وہ نہروں پر رُکے، پھل توڑ کر کھائے، بڑا مزہ آیا۔ اس طرح کامران علی کا پہلا سائیکل کا سفر 52 کلو میٹر بنا جس میں آنا جانا شامل تھا۔ اس سے اسے ایک عجیب سا مزہ آیا اور کہتے ہیں نہ ’جیسے پر لگ جاتے ہیں‘ انہیں بھی ایسا ہی محسوس ہوا۔
اس کے بعداس نے گھر والوں سے چھپ چھپا کے لیہ سے ملتان کا ٹرپ کیا، جو کہ 150 یا 160 کلو میٹر کا تھا۔ اس کے بعد لیہ سے لاہور بھی گیا جو کہ دو دن کا سفر تھا اور ہر سفر کے بعد جب گھر والوں کو پتا چلتا تھا تو پھر مار بھی پڑتی تھی کہ پڑھنے کی بجائے یہ کیا کر رہے ہو۔اس کے بعد اس کا جرمنی میں کمپیوٹر سائنسز میں داخلہ ہو گیا۔ حالات تو مشکل تھے، بس بڑی مشکل سے لوگوں سے مانگ تانگ کر پیسے اکٹھے کیے اور جرمنی کا سفر شروع کیا۔یہ 16 اکتوبر 2002 کی بات ہے۔ اسلام آباد سے فرینکفرٹ کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ تھی۔ وہاں پہنچ کر بس زندگی ایک مرتبہ پھر مصروف ہو گئی۔ پہلے اس نے ایم ایس سی کی، اس کے بعد جو قرضے لے کر آیا تھا، وہ آہستہ آہستہ اتارے، پھر اس کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ مل گیا، وہ کرنے لگ گیا۔ پھر گھر والوں کی ذمہ داریاں پوری کرتے کرتےاسے نو سال لگ گئے۔ کامران علی نے جب گھر والوں کو بتایا کہ میں سائیکل پر واپس آنا چاہتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ ہم نے تم کو اتنی دور جرمنی اتنا خرچ کر کے پڑھنے کے لیے بھیجا اور تم وہی غریبوں کی سواری سائیکل کی ہی بات کر رہے ہو۔بہرحال میں نے پھر اپنی ماں کو جذباتی طور پر بلیک میل کیا اور اس طرح مجھے اجازت ملی۔ سنہ 2011 میں کامران علی نے جرمنی سے پاکستان کا اپنا سفر شروع کیا۔ پورا یورپ تو بس دیکھتے دیکھتے ہی گزر گیا۔ دن میں سو دو سو کلومیٹر اور کبھی کبھی 250 کلو میٹر بھی ہو جاتے تھے۔ جب وہ ترکی پہنچا تواسے اس کے بھائی کی کال آئی کہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ ہسپتال میں ہیں۔ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اس لیے وہ جلدی جلدی گھر پہنچے۔اس نے وہاں ایک جگہ سائیکل رکھی، استبول پہنچا اور وہاں سے پاکستان کے لیے فلائٹ لی۔ آنے کے بعد کچھ عرصہ ہسپتال میں رہا، پھراس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا کیونکہ ایک خواب تھا کہ وہ سائیکل پر جائے گا پاکستان اور امی سے ملاقات ہو گی، وہ دیکھیں گی کہ بیٹا سائیکل پر بھی جرمنی سے آ سکتا ہے۔ سو سنہ 2011 میں ہی جرمنی واپس آنے کے بعد اس کا دل اتنا بوجھل تھا کہ یہاں تک سوچا کہ اب دوبارہ سائیکلنگ نہیں کرنی۔ والدہ کی موت اور ادھورے سفر سے اس کا ایک طرح دل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ لیکن دل کا کیا کریں، ایک سال بعد دوبارہ خواب آنا شروع ہو گئے۔کامران علی نے مارچ 2015 میں وہ نوکری ہی چھوڑ دی۔ کچھ سامان سٹوریج میں رکھوا دیا، کچھ پھینک دیا۔ ایک چھوٹی سی کار تھی وہ بھی بیچ دی۔ یعنی میں چار سال بعد دوبارہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اپنے سفر کی تیاری شروع کر دی – اس نے وہیں سے دوبارہ سفر شروع کیا جہاں پر اس کا سفر رکا تھا، بلکہ ترکی کے اسی ہوٹل میں رات بھی گزاری جہاں سنہ 2011 میں ٹھہرا تھا۔ جب کامران علی نے دوبارہ سفر شروع کیا تو ایران براہ راست جانے کی بجائے اس نے سینٹرل ایشیا کے ممالک سے ہو کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ وسطیٰ ایشیا سے ہوتا ہوا خنجراب کے ذریعے پاکستان آیا۔ سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایران سے ترکمانستان، اس کے بعد ازبکستان، تاجکستان، کرغستان اور پھر چین اور وہاں سے خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان۔آخرکارجولائی 2015 کو پاکستان میں داخل ہوا۔ اس طرح خواب کے تخیل اور اسے حقیقت کا رنگ بھرنے میں کل 13 سال لگے۔- نو برسوں میں پچاس ہزار کلو میٹر کا سفر اور 43 ممالک کی سیر کرنے والے کامران آج کل کووڈ 19 کی وجہ سے پاکستان میں رُکے ہوئے ہیں اور اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ انھیں کب سبز جھنڈی نظر آئے اور وہ اپنی سائیکل کے پیڈلوں پر پیر رکھیں۔کامران علی کے جنھیں عام طور پر ’کامران آن بائیک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سوچ رہا ہوں کہ قانونی طور پر بھی اپنا نام بدل کر کامران آن بائیک ہی رکھ لوں-
۔
