اکسائی چِن کا مطلب ہے ’سفید پتھروں کا صحرا‘۔ دنیا کے بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں واقع یہ وہ علاقہ ہے جہاں تبت، لداخ اور سنکیانگ کی سرحدیں ملتی ہیں اور آجکل ایک بار پھر چین اور انڈیا کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔تاریخ پر نظر دوڑائیں تو انڈیا اور چین جیسے بڑے ممالک کا اس جغرافیائی طور پر دشوار گزار خطے میں مد مقابل آنا انوکھی بات نہیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ’لداخ کی گزشتہ 1500 سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس ویران علاقے میں موجودہ تنازعہ ایک پرانے سلسلے کی کڑی ہے۔‘ایک ایسا سلسلہ جس کے ابتدا میں چین کے بادشاہ اور اسلامی سلطنت کے خلیفہ بھی آمنے سامنے نظر آتے ہیں۔
’اکسائی چِن بلا شک و شبہ دنیا کے سنسان ترین علاقوں میں سے ایک ہے، ایک ایسا علاقہ۔۔۔جس کے بارے میں نہرو نے کہا تھا کہ۔۔۔۔وہاں نہ لوگ رہتے ہیں اور نہ گھاس کا تنکا اگتا ہے۔ پھر بھی مسلح جھڑپیں ہوئی ہیں اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔‘یہ لائن سنہ 1962 کی انڈیا اور چین کی جنگ کے ایک سال بعد شائع ہونے والی ایک کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ: سائنو انڈیا رائولری اِن لداخ‘(ہمالیائی میدان جنگ: لداخ میں انڈیا چین دشمنی) سے لی گئی ہے۔کتاب کے مصنفین ماگریٹ ڈبلیو فِشر، لیو ای روز، رابرٹ اے ہٹن بیک نے انڈیا اور چین کے درمیان اس تنازعہ کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ بنیادی طور پر یہ معاملہ ’انڈیا اور چین کی قومی سلامتی اور وسیع تر اقتصادی اور سیاسی مفادات کا ہے۔‘ انھوں نے ان ممالک کی پڑوسی ریاستوں کے دور رس مفادات اور علاقے کی معدنی دولت(سنکیانگ میں تیل کے ذخائر اور مغربی تبت میں سونے اور یورینیم کی موجودگی) کا بھی ذکر کیا۔
لداخ اور خلیفہ ہارون الرشید
مؤرخ سُکھ دیو سنگھ نے اپنی کتاب ’جرنیل زورآور سنگھ‘ میں لکھا ہے کہ گلگت، بلتستان اور لداخ ساتویں اور آٹھویں صدیوں میں چین، تبت اور خلیفہ ہارون الرشید کی قیادت میں عرب سلطنت کے درمیان سیاسی کشمکش کا مرکز بھی رہے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ لداخ جغرافیائی طور پر ہمیشہ ایک الگ خطہ رہا ہے لیکن کئی بار اس کے حکمران اپنے پڑوسیوں کے تابع رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال آٹھویں صدی میں بھی تھی جب اس کی حیثیت اپنے مشرقی ہمسائے تبت کے صوبے کی تھی لیکن اس کا حکمران دنیاوی معاملات میں خودمختار تھا۔ مذہبی معاملات میں وہ لہاسا کے دالائی لامہ کے تابع تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تبت خود اپنے مشرقی ہمسائے چین کے زیر تسلط تھا۔
سُکھ دیو سنگھ لکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں تبت ایک طرف ’چین کے تسلط سے آزادی کے لیے کوشش کر رہا تھا تو دوسری طرف عربوں سے لڑ رہا تھا جو خلیفہ ہارون الرشید کی قیادت میں وسطی ایشیا کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے۔‘
وسطی ایشیا میں خلیفہ کی مہم
کتاب ’ہمالین بیٹل گراؤنڈ‘ میں لکھا ہے کہ 7ویں صدی میں وسطی ایشیا میں بالادستی کی کشمکش میں (چین، تبت، کشمیر، لداخ، بلتستان، ترکستان، اور کسی حد تک انڈیا اور نیپال کے بعد) اسلامی عرب سلطنت کی صورت میں ایک نئی طاقت کا اضافہ ہوا۔اس وقت تبت اور چین کے درمیان ترکستان تک رسائی کے لیے جھگڑا تھا اور اس کا مرکز تھا لداخ اور بلتستان۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ کشمیر اس مسئلے کا براہ راست فریق بن چکا تھا۔کتاب میں مؤرخین لکھتے ہیں کہ عربوں کے دباؤ کی وجہ سے چین اور کشمیر کے درمیان ایک طرح کا اتحاد قائم ہو چکا تھا۔ ’سنہ747 میں ایک بڑی فوج جسے شاید کشمیر کی بھی حمایت حاصل تھی بلتستان میں اپنا زور قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ عرب پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے گلگت تک چینی گیریژن قائم کی گئی تھی۔ لیکن چینیوں کی کامیابی عارضی تھی اور انھیں سنہ 751 میں عربوں کے ہاتھوں بڑی شکست ہوئی ۔۔۔۔۔۔اور انھیں مغربی ترکستان کا بڑا حصہ عباسی خلیفہ کے حوالے کرنا پڑا۔ ‘
مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ صورتحال اس وقت بدلی جب تبت نے ترکستان میں کامیابی حاصل کی اور چین کی جگہ تبت عباسی خلیفہ کی اسلام کو مشرق میں پھیلانے کی خواہش کے راستے میں کھڑا تھا۔ ’بغداد کے خلیفہ ہارون الرشید نے تبت کے ساتھ سنہ 798 میں معاہدہ ختم کر دیا اور ایک نمائندہ چین بھیج کر اکٹھے ترکستان پر حملے کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن سنہ 803 میں بازنطینیوں کے ساتھ دوبارہ لڑائی شروع ہونے کی وجہ سے خلیفہ کی توجہ بٹ گئی اور پھر جب سنہ 808 میں دوبارہ وسطی ایشیا میں مہم کا آغاز ہوا تو خلیفہ ہارون الرشید کا اس دوران انتقال ہو گیا اور ’ایک بار پھر وسطی ایشیا میں عرب پیش قدمی مؤخر ہو گئی۔‘

“Villagers gather to carry stone to the Serzang temple for the construction of the retaining wall”
April 2004
original – digital Word Doc “tour-report-April.doc”
مغل بادشاہوں کی لداخ میں دلچسپی
مؤرخ پرتھوی ناتھ کول بامزئی اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف کشمیر میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1586 میں اکبر بادشاہ کے دور میں جب کشمیر مغلیہ سلطنت کا حصہ بنا تو لداخ بھی اس سیاسی تبدیلی کے اثر سے نہیں بچ سکا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اکبر کے کشمیر کے دوسرے دورے کے دوران انھوں نے لداخ کے اس وقت کے حکمران اجو رائے کو ہٹا کر اپنے نامزد کردہ علی رائے کو وہاں تعینات کر دیا۔اس کے بعد، 17ویں صدی میں اپنے منگول ہمسائیوں کے حملے سے نمٹنے کے لیے لداخ کے حکمرانوں نے مغل شہنشاہ شاہ جہاں سے مدد طلب کی۔ منگولوں کی شکست کے بعد لداخ نے اعلان کیا کہ وہ اب صرف کشمیر کے ساتھ شالوں کی تجارت کرے گا لیکن، بامزئی لکھتے ہیں کہ، مغل فوج کے لداخ سے نکلتے ہی منگول پھر واپس آ گئے اور مقامی حکمرانوں کو انھیں نذرانہ دینے کا وعدہ کرنا پڑا۔مغل بادشاہ اورنگزیب کو اس واقعے کا علم تھا اور وہ لداخ کے بادشاہ کو ’سبق سکھانا چاہتے تھے۔‘ سنہ 1665 میں کشمیر کے دورے کے دوران انھوں نے لداخ پر حملے کا اراداہ بھی ظاہر کیا۔